سرحدوں پر بی ایس ایف کے اختیارات میں اضافہ

   

آراین تیواری
وزارت امور داخلہ نے 11 اکتوبر کو ایک گزٹ نوٹیفکیشن کے ذریعہ بی ایس ایف ایکٹ میں ترمیم کی اور اس ترمیم کے ساتھ ہی بی ایس ایف کے دائرہ کارروائی کو بڑھا دیا گیا۔ مثال کے طور پر اس ترمیم سے قبل پنجاب، مغربی بنگال اور آسام کی بین الاقوامی سرحدوں پر 15 کیلومیٹر فاصلہ تک ہی بی ایس ایف (بارڈرسکیورٹی فورسیس) کو تلاشی ، ضبطی اور گرفتاری کا اختیار تھا لیکن اب اسے 50 کیلومیٹر کے فاصلے تک تلاشی، ضبطی اور لوگوں کو گرفتار کرنے کا اختیار حاصل ہوگا۔ ہاں گجرات میں جہاں بی ایس ایف پولیس کو حاصل اختیارات کا استعمال کرسکتی ہے، سرحد پر اس کارروائیوں (تلاشی، ضبطی اور گرفتاری) کے دائرہ یا فاصلے کو محدود کردیا گیا۔ مرکزی وزارت داخلہ کا یہ فیصلہ ایک متنازعہ فیصلہ ہے اور پنجاب کی ریاستی حکومت نے ایسے وفاقیت کے اصول پر حملہ کی حیثیت سے دیکھا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بی ایس ایف ایک سنٹرل پیرا ملٹری فورسیس (سی پی ایم ایف) ہے جو مرکزی حکومت کو رپورٹ کرتی ہیں جبکہ پولیسنگ ریاست کے تحت ہوتی ہے۔

بی ایس ایف کو پولیس اختیارات کیوں دیئے گئے ؟
ایک بنیادی حقیقت یہ ہے کہ سیاسی قائدین اور یہاں تک کہ پولیس اور بی ایس ایف کے برسرخدمت عہدیدار بھی اس سے واقف نہیں اور وہ بی ایس ایف کو پولیس اختیارات دیئے جانے کے پیچھے کارفرما وجہ ہے۔ اب یہی سوال گردش کررہا ہے کہ آخر پولیس اختیارات بارڈر سکیورٹی فورسیس کو کیوں دیئے گئے ہیں۔ اب کو یاد دلادیں کہ 1968ء میں بعض ریاستوں کی سرحدوں پر ایک محدود علاقہ میں بی ایس ایف کو پولیس کے اختیارات دیئے گئے تھے۔ اس دور میں ریاستی پولیس اہلکاروں کی تعداد بہت کم ہوا کرتی تھی اور خاص طور پر سرحدی علاقوں میں۔ اس لئے اس کی پابجائی کے طور پر بی ایس ایف قائم کی گئی اور پھر سرحدی علاقوں میں بی ایس ایف پولیس کے اختیارات تفویض کئے گئے۔ تاہم بعد میں ریاستی پولیس فورسیس کی تعداد میں بے نظیر اضافہ ہوا، اہلکاروں کی تعداد میں بھی اور وسائل میں بھی اضافہ دیکھا گیا۔ مزید برآں یہ کہ 1960ء اور 1970ء کے دہے میں وائرلیس کنکٹیوٹی بہت ہی خراب معیار کی ہوا کرتی تھی، اور فون بھی شاذ و نادر ہی دیکھنے میں آتے تھے۔ اگرچہ 1960ء کے دوران ہندوستان میں ایس ٹی ڈی سہولت متعارف کروائی جاچکی تھی، اکثر سرکاری دفاتر اور یہاں تک کہ سینئر آئی اے ایس ؍ آئی پی ایس عہدیداروں کو ان کے سرکاری فونس سے طویل مسافت کیلئے راست ڈائیل کی سہولت نہیں دی گئی تھی۔ 1980ء کے دہے میں بھی فیلڈ دفاتر کا انحصار ٹرنک کالس پر ہوا کرتا تھا اور یہ کالس ایک طویل انتظار کے بعد جڑتی تھیں۔ اُس دور میں موبائیل فونس کا تصور بھی نہیں تھا۔ دوسری طرف نہ صرف سرحدی علاقوں میں سڑکوں کی حالت انتہائی ابتر ہوا کرتی تھی بلکہ پولیس اسٹیشنوں میں بھی چند گاڑیاں ہی مہیا کی جاتی تھیں۔ جو سب سے عام گاڑی تھی اور اسٹیشن ہاؤز آفیسر کیلئے فراہم کی جاتی تھی، وہ موٹر بائیک ہوا کرتی تھی جبکہ اعلیٰ سینئر عہدیداروں کو JEEP گاڑیاں دی گئی تھیں لیکن اس پر بھی یہ پابندی عائد کی گئی تھی کہ حکومت کی جانب سے انہیں ماہانہ صرف 45 لیٹر پٹرول فراہم کیا جائے گا۔ واضح رہے کہ WILLYS JEEPکی فیول ٹینک میں 45 لیٹر پٹرول کی ہی گنجائش ہوا کرتی تھی۔ ان حالات میں سکیورٹی فورسیس جیسے بی ایس ایف اور فوج زیادہ تر ٹرکس پر انحصار کیا کرتے تھے۔ یہ ایسے حالات تھے جس میں سرحدی علاقوں میں تعینات سکیورٹی فورسیس عملاً اپنے طور پر اور رات کے اندھیرے میں کارروائیاں کرتے۔ ہاں بی ایس ایف ایکٹ کے سیکشن 139 کے ذریعہ بی ایس ایف کو پولیس اختیارات کا دیا جانا کسی طرح منصفانہ بھی ہے۔ مثال کے طور پر کسٹم ایکٹ، پاسپورٹ ایکٹ،
FERA
، سنٹرل اکسائیزیز اینڈ سیلز ایکٹ، پاسپورٹ (ہندوستان میں داخلے) ایکٹ اور فارنرس ایکٹ کے نفاذ کو یقینی بنایا جائے اور اس کیلئے بی ایس ایف کو پولیس اختیارات دینا ضروری تھا۔ اگر بی ایس ایف کو اس قسم کے اختیارات نہیں دیئے جاتے تھے تو پھر سطور بالا میں حمل و نقل و مواصلات کا حوالہ دیا گیا، وہ مزید پریشان کن ہوجاتے، اس سے کسی ملزم کو تعزیرات ہند کے تحت مقررہ مدت میں کسی بھی متعلقہ عدالت میں پیش کرنے میں بہت مشکلات ہوتیں، لیکن یہاں تک تو یہ معقول بات ہے تاہم جن علاقوں میں مواصلات اور حمل و نقل کی سہولتیں بہتر ہوں، وہاں یہ باتیں نامعقول ہوجاتی ہیں۔ جہاں تک بی ایس ایف کی کارروائیوں کا سوال ہے، بعض کارروائیوں کے دوران اس کے جوان بھی اپنی زندگیوں سے محروم ہوجاتے ہیں۔ اگر حکومت نے اسمگلنگ کو روکنے کیلئے یہ قدم اٹھایا ہے تو پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ سرحدی پٹی پر اس کے دائرہ اختیار اتنے برسوں تک غیرموثر کیوں رہا۔ یعنی اسمگلنگ کو روکنے کے نام پر بی ایس ایف کے اختیارات میں اضافہ کا مطلب یہی ہے کہ حکومت اپنی ناکامیوں کا اعتراف کررہی ہیں۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اب تک ریاستی پولیس نے 15 کیلومیٹر تا 50 کیلومیٹر علاقہ میں اسمگلنگ ریاکٹس کو تحفظ فراہم کرتی رہی یا پھر بی ایس ایف کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرتی رہی۔ منشیات کے تعلق سے اکثر پنجاب کے بارے میں بہت کچھ کہا جاتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ 2019-20ء میں اترپردیش، مہاراشٹرا، تلنگانہ اور ٹاملناڈو میں سب سے زیادہ منشیات کی ضبطی عمل میں آئی۔ جبکہ 2018-19ء میں سب سے زیادہ منشیات کی ضبطی بہار، آندھرا پردیش، مہاراشٹرا اور آسام میں کی گئی۔ اس فہرست میں پنجاب شامل نہیں تھا تو پھر اسمگلنگ ہی سب سے بڑی تشویش کی بات ہے۔ سرحدوں پر سکیورٹی دراصل دراندازی کو روکنے کیلئے بھی سخت کی جاتی ہے، لیکن غیرقانونی دراندازی اور جانوروں کی اسمگلنگ، انسانوں کی اسمگلنگ کے معاملے میں ہند۔ بنگلہ دیش سرحد بہت حساس سمجھی جاتی ہے۔ سب سے زیادہ جانوروں کی اسمگلنگ اسی سرحد پر ہوتی ہے۔ اس معاملے میں پارلیمانی کمیٹی نے جب سوال کیا کہ تو وزارت کا یہ جواب تھا کہ اس کی سب سے اہم وجہ سرحدی علاقوں میں کثیر آبادی ہے۔ عالمی سرحد کے بالکل قریب 300 دیہاتوں پائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ضبط شدہ جانور بی ایس ایف کسٹمز حکام کے حوالے کردیتے ہیں اور یہ حکام ان کی بولی لگا دیتے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ بولی میں چھڑائے گئے یہ جانور اسمگلرس کے ہاتھ لگ جاتے ہیں۔ وزارت امور داخلہ نے ایک اور وجہ یہ بھی بتائی کہ سرحدی اضلاع میں مقامی آبادی کا ایک حصہ اسمگلنگ کی سرگرمیوں میں ملوث ہے۔ وزارت امور داخلہ کے مطابق بی ایس ایف معذور ہے کیونکہ سرحدی پٹی پر اس کا دائرہ اختیار بہت کم ہے۔