سرمایہ کاری میں آندھرا کو نقصان ، تلنگانہ کو فائدہ

   

تلنگانہ / اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
آندھرا پردیش کے چیف منسٹر جگن موہن ریڈی کی پالیسیوں نے کے سی آر حکومت کو زبردست فائدہ پہونچایا ہے ۔ آندھرا پردیش سے وہ تمام بین الاقوامی سرمایہ کار اور صنعت کار اپنا رخ تلنگانہ کی طرف کررہے ہیں ۔ جگن موہن ریڈی کی صلاحیتوں پر انگلیاں اٹھانے والوں نے یہ قیاس آرائی بھی کی ہے کہ آندھرا پردیش کو بہت جلد کنگال بنادیا جائے گا ۔ امراوتی اسٹارٹ اپ علاقہ سے سنگاپور کی کمپنیوں کو ہٹا دینے کا فیصلہ تباہ کن ثابت ہوگا کیوں کہ سنگاپور کی ان کمپنیوں نے آندھرا پردیش کی حکومت کے رویہ کو دیکھتے ہوئے حیدرآباد کے اطراف اپنی صنعتیں قائم کرنا شروع کیا۔ ایک بہتر اور سمجھدار حکمرانی دینے کا دعویٰ کرنے والے چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے ان کمپنیوں کا ریاست میں خیر مقدم کرتے ہوئے سرخ قالین استقبال کیا ہے ۔ تلنگانہ کے لیے سنگاپور کی کمپنیاں سرمایہ کاری میں دلچسپی پیدا کرتی ہیں تو اس سے روزگار پیدا ہوگا اور مالیہ متحرک کرنے میں مدد ملے گی ۔ سنگاپور کو ٹکنالوجی کے معاملہ میں ساری دنیا میں ایک معیاری ملک کی حیثیت سے جانا جاتا ہے ۔ سنگاپور اختراعی اور ترقی یافتہ اقدامات کرتے ہوئے اپنا نام کمایا ہے ۔ تلنگانہ یا حیدرآباد میں سنگاپور کی کمپنیوں کا جال بچھانے میں سابق چیف منسٹر این چندرا بابو نائیڈو کا رول ناقابل فراموش ہے ۔ چندرا بابو نائیڈو نے ریاست آندھرا پردیش اور امراوتی کو ترقی دینے کے لیے کئی پرکشش پالیسیاں تیار کی تھیں لیکن حالیہ اسمبلی انتخابات میں تلگو دیشم کی شکست اور وائی ایس جگن موہن ریڈی پارٹی کی کامیابی کے بعد جگن نے حلف لیا ۔ اقتدار ملنے کے بعد جگن اپنے پیشرو چندرا بابو نائیڈو کے کئی کاموں کو روک دیا ۔ اب صورتحال یہ ہے کہ عالمی سطح پر کوئی بھی بڑی کمپنی آندھرا کا رخ کرنے تیار نہیں ہے ۔ جگن یا چندرا بابو نائیڈو کے برعکس کے چندر شیکھر راؤ کی پالیسیاں مختلف ہیں ۔ کے سی آر نے اپنے سیاسی کیرئیر میں کبھی ناکامی کا منہ نہیں دیکھا ۔ جب انہیں ٹی ایس آر ٹی سی یونین ملازمین کی ہڑتال کا سامنا کرنا پڑا تو اس مسئلہ کو پوری طاقت کے ساتھ کچلنے کی کوشش کی اور اب وہ کامیاب دکھائی دے رہے ہیں ۔

اس احتجاج کے دوران تقریبا 22 آر ٹی سی ورکرس نے خود کشی کی ہے ۔ ان ملازمین کے جانوں کو ضائع کرنے کے بعد ٹی ایس آر ٹی جے اے سی کنوینر اشوتھما ریڈی نے کہا کہ اب ان کا گروپ آر ٹی سی کو حکومت میں ضم کرنے کے مطالبہ سے دستبردار ہورہا ہے ۔ یہ فیصلہ کے سی آر کے لیے بہت بڑی کامیابی ہے ۔ کے سی آر کو اپنی ذات پر کامل یقین ہے اس لیے انہوں نے آر ٹی سی ملازمین کی ہڑتال کو کمزور کردیا ہے ۔ جب ریاست میں سرمایہ کاری کا بہاؤ بڑھنے لگتا ہے تو اس کا سارا سہرا اپنے سر لیتے ہوئے کے سی آر نے آندھرا پردیش کے حصہ کے کاموں کو تلنگانہ کے حق میں کرلیا ہے ۔ جگن موہن ریڈی کے دور حکومت میں آندھرا پردیش کو عالمی بیرونی کمپنیوں کی سرمایہ کاری کا طویل انتظار کرنا پڑے گا ۔ دو تلگو ریاستوں کی سیاسی قیادت نے ابتداء میں ایک دوسرے سے دیرینہ دوستی کا مظاہرہ کیا تھا لیکن اب ان کی دوستی میں دراڑ پڑ گئی ہے ۔ کے سی آر یا جگن کے قریبی ذرائع اس بات کا پتہ چلانے کی کوششیں کررہے ہیں کہ تلنگانہ میں حکمراں پارٹی کو کمزور کرنے کے لیے کیا کام انجام دئیے گئے ہیں ۔ اس کا جائزہ لیا جانا چاہئے ۔ چیف منسٹر تلنگانہ کے سی آر اور چیف منسٹر آندھرا پردیش جگن کے درمیان دوستی تیزی سے بام عروج پر پہونچکر سرد پڑ گئی ہے ۔ دو تلگو ریاستوں کے چیف منسٹروں کے درمیان تعلقات کے بارے میں کئی رپورٹس سامنے آئی ہیں ۔ کیوں کہ آندھرا پردیش نے کالیشورم پراجکٹ کو قومی موقف دینے کی مخالفت کی ہے ۔ اس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ کے سی آر اور جگن میں سب کچھ ٹھیک نہیں ہے ۔ آندھرا پردیش اسمبلی انتخابات میں جگن کی پارٹی وائی ایس کانگریس کو بھاری اکثریت سے کامیابی ملنے کے بعد یہ دیکھا گیا تھا کہ چیف منسٹر تلنگانہ کے سی آر نے جگن کی مدح سرائی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی اور انہیں کالیشورم پراجکٹ کے افتتاح کے لیے خصوصی مہمان کے طور پر مدعو کیا تھا لیکن اب اندر ہی اندر دونوں ایک دوسرے کے حریف ہوئے ہیں اس لیے جگن موہن ریڈی نے گوداوری کے پانی کو کرشنا کی جانب موڑ دینے والے مشترکہ پراجکٹ کی تجویز کو ترک کردیا ہے ۔ تلگو دیشم کو ان تبدیلیوں میں کافی دلچسپی دکھائی دے رہی ہے اور چندر بابو نائیڈو ایک موقع کی تلاش میں ہیں کہ جگن موہن ریڈی حکومت کی کارکردگی کے خلاف عوام کی ناراضگی میں جس دن اضافہ دیکھا جائے گا ۔ اس دن نائیڈو اپنا ہتھیار استعمال کریں گے ۔ ابتداء میں جگن اور کے سی آر کایارانہ کافی زیر بحث رہا تھا یہ یارانہ اچانک یا دھیرے دھیرے جگن کے مزاج کی وجہ سے ختم ہونے لگا ۔ گوداوری کے پانی کو لے کر دونوں ریاستوں کے چیف منسٹروں نے اچھے خواب دیکھے تھے لیکن جگن نے اس پراجکٹ کو ختم کرنے کا اعلان کیا تو یہ سارا منصوبہ گوداوری ندی کے پانی میں بہہ گیا ۔ گذشتہ ماہ مئی میں ہی انتخابات کے موقع پر کے سی آر اور جگن نے ایک دوسرے کا بھر پور ساتھ دیا تھا ۔ کے سی آر کو جگن کی جیت اور چندرا بابو نائیڈو کی شکست پر کافی مسرت ہوئی تھی لیکن ان کی یہ مسرت بہت دیر تک قائم نہ رہ سکی ۔ کیوں کہ جگن کا رویہ کے سی آر کے لیے تکلیف دہ بن گیا ۔ پڑوسی تلگو ریاستوں میں ٹی آر ایس کو سیاسی قوت عطا کرنے اور اسے متعارف کرنے کی ایک کوشش کے حصہ کے طور پر کے سی آر نے جگن کی حمایت کی تھی اور اب یہ مسئلہ پیچھے رہ گیا ہے ۔ کے سی آر کی پارٹی میں داخلی طور پر سب کچھ ٹھیک نہ ہونے کی رپورٹ سے پارٹی لیڈر اور ریاستی وزیر کے ٹی راما راؤ کے لیے ایک مضبوط اشارہ مل رہا ہے کہ وہ بہت جلد اپنے والد کو سرگرم سیاست سے ریٹائر کر کے ٹی آر ایس کی باگ دوڑ خود سنبھالیں گے ۔ اترپردیش میں جس طرح اکھلیش یادو نے اپنے والد ملائم سنگھ یادو کو پارٹی سے دور کر کے ساراکام خود دیکھنا شروع کیا تھا اسی طرح تلنگانہ راشٹرا سمیتی کے قائدین کی داخلی ناراضگی سے پارٹی پھوٹ کا شکار ہوجائے گی اور اس انتشار کی کیفیت میں کے ٹی راما راؤ پارٹی کی باگ دوڑ سنبھالیں گے ۔ دلچسپ تبدیلی یہ دیکھی گئی کہ ٹی آر ایس کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس کی صدارت اب تک کے چندر شیکھر راؤ ہی کرتے آرہے تھے لیکن اس مرتبہ کے ٹی راما راؤ نے اجلاس کی صدارت کی ۔ یہ ایک اہم تبدیلی ہے ۔ کے ٹی آر نے پارٹی کے کارگذار صدر کی حیثیت سے اجلاس کی صدارت کی اس سے قیاس آرائیوں کو تقویت مل رہی ہے کہ ٹی آر ایس کی مکمل باگ دوڑ بھی وہ حاصل کرلیں گے ۔۔
kbaig92@gmail.com