سرکاری فنڈز سے سیاسی تشہیر

   

یوں تو صوت سے ظاہر ہے گہرائیاں
ہم سمجھتے ہیں اب اُن کی چالاکیاں
حکومتوں کا کام عوامی امور کی انجام دہی ہوتا ہے اور عوام کو راحت و سہولت پہونچانے والے اقدامات کرنا حکومتوں کا فریضہ ہوتا ہے ۔ حکومتوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ملک و ریاستوں میں امن و قانون کو یقینی بنائے ۔ عوامی سہولیات کو یقینی بنائے ۔ عوام کو بنیادی سہولتیں فراہم کرنے کی جدوجہد کرے ۔ ہر گذرتے وقت کے ساتھ ان کی تکالیف کو کم سے کم کرتے ہوئے سہولیات کو زیادہ سے زیادہ کیا جائے ۔ ان ہی وعدوں کو دیکھتے ہوئے عوام کی جانب سے سیاسی جماعتوں کو ووٹ دیا جاتا ہے ۔ انہیں اقتدار پر فائز کیا جاتا ہے ۔ سابقہ حکومتوں کی کارکردگی سے اگر عوام خوش نہ رہیں تو انہیںاقتدار سے بیدخل بھی کردیا جاتا ہے ۔ یہی طریقہ کار جمہوری ہے ۔ اسی کے نتیجہ میں ملک میں کئی سیاسی جماعتوں کو کبھی عروج حاصل ہوتا ہے تو وہ کبھی زوال کا شکار ہوجاتی ہیں۔ جب وہ عروج پر پہونچتی ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ عوامی کاز کہیں پیچھے چلا جاتا ہے اور زیادہ سے زیادہ سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔ حالیہ عرصہ میں دیکھا گیا ہے کہ ریاستی اور مرکزی حکومتوں کی جانب سے تشہیر پر زیادہ توجہ دی جارہی ہے ۔ پہلے تو اشتہارات کی اجرائی عمل میں لائی جاتی تھی ۔ اس کیلئے فنڈز مہیا کروائے جاتے تھے ۔ جب ان فنڈز کے خرچ پر جانچ پڑتال ہونے لگی تو آج کل یہ روایت عام ہوگئی ہے کہ ٹی وی چینلس کو فنڈنگ کرتے ہوئے اپنے انداز میں تشہیر کروائی جا رہی ہے ۔ تشہیر کے ذریعہ سے سیاسی فائدہ حاصل کرنا عام بات ہوگئی ہے ۔ کئی ریاستی حکومتوں کی جانب سے بھی یہی روش اختیار کی جا رہی ہے ۔ ریاستوں میں اشتہارات کی اجرائی کا عمل اب بھی جاری ہے۔ ان اشتہارات کو بھی سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے ۔ ریاستی حکومتوں یا مرکزی حکومت کے کاموں کو اجاگر کرنے کیلئے چیف منسٹروں ‘ ریاستی وزراء ‘ مرکزی وزراء اور وزیراعظم کی تصاویر کی اشاعت عام بات ہوگئی ہے ۔ اس کے ذریعہ سے شخصی تشہیر بھی کی جارہی ہے اور افسوس اس بات کا ہے کہ ا س طرح کی ساری تشہیر کیلئے سرکاری فنڈز کا استعمال کیا جا رہا ہے ۔کروڑہا روپئے اشتہار بازی پر خرچ کرنے سے گریز نہیں کیا جا رہا ہے ۔
اس معاملے میں جہاں مرکزی حکومت سب سے آگے ہے وہیں ریاستی حکومتیں بھی اس میں زیادہ پیچھے نہیں رہ گئی ہیں۔ جس کو جتنے وسائل اور فنڈز دستیاب ہیں وہ ان کا اتنا ہی بیجا استعمال کر رہے ہیں۔ اگر کسی حکومت کی کوئی اسکیم عوامی سطح پر مقبول ہوتی ہے تو اس کیلئے تشہیر کی ضرورت نہیں رہتی ۔عوام خود اس پر اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہیں اور اسکیم شروع کرنے والی حکومت کی تائید کی جاتی ہے ۔ اگر اس کی تشہیر کی بھی جائے تو حکومت کی بجائے سربراہ حکومت کی تشہیر پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے ۔ اسی وجہ سے بھاری رقومات اور فنڈز خرچ کئے جاتے ہیں تاکہ ان کے ذریعہ زیادہ سے زیادہ سیاسی فائدہ حاصل کیا جاسکے ۔ سیاسی عزائم کی تکمیل کیلئے عوامی فنڈز کا استعمال ایک بیجا روایت ہے اور یہ عوامی رقومات کا بیجا استعمال ہے ۔ اس کا سلسلہ ترک کئے جانے کی ضرورت ہے ۔ جو رقومات اشتہار بازی اور تشہیر پر خرچ کی جا رہی ہیں انہیں عوامی فلاح و بہبود پر صرف کرنے کی ضرورت ہے تاکہ لوگ اس سے استفادہ کرسکیں۔ حکومتوں کے خزانے جو بھرے جاتے ہیں وہ عوامی ٹیکس کے ذریعہ ہی حاصل ہونے والی آمدنی ہوتی ہے اور ان فنڈز کے ذریعہ ذاتی یا سیاسی تشہیر کرنے کا کوئی جواز نہیں ہوسکتا ۔ تاہم اس کا چلن بہت زیادہ عام ہوگیا ہے ۔ اس روش کو بدلتے ہوئے معمولی سے معمولی فنڈ کو بھی عوام کی بہتری اور فلاح پر خرچ کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ عوام کا حق ہے اور انہیں کی محنت کی کمائی سے حاصل ہونے والی آمدنی کا ہی حصہ ہے ۔
دہلی کی عام آدمی پارٹی حکومت کو سرکاری فنڈز سے اشتہارات جاری کرنے پر نوٹس ملی ہے اور 163 کروڑ روپئے کی بھاری رقم واپس کرنے کو کہا گیا ہے ۔ یہ ایک معمولی سی مثال ہے کہ کس طرح سے حکومتیں اپنے سیاسی فائدہ کیلئے عوامی رقومات کو ضائع کر رہی ہیں ۔ عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کرنے سے زیادہ حکومت یا سربراہ حکومت کی تشہیر پر رقومات ضائع کی جارہی ہیں۔ اس کے نتیجہ میں غلط مثال قائم ہو رہی ہے ۔ مرکزی حکومت ہو یا پھر ریاستی حکومتیں ہوں سبھی کو اس معاملے میں اپنی ترجیحات کو تبدیل کرنا ہوگا اور عوامی رقومات کو سیاسی اغراض ومقاصد کیلئے استعمال کرنے کا سلسلہ ترک کرنا ہوگا ۔