سرکاری ملازمین میں کٹوتی واہ کیا بات ہے!

   

رویش کمار
نئی حکومت سرکاری شعبہ کی کمپنیوں جیسے بی ایس این ایل اور ایم ٹی این ایل میں ملازمین کی تعداد میں کٹوتی پر غور کررہی ہے۔ ’فینانشیل اکسپریس‘ کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ منگل کو وزیر داخلہ امیت شاہ کی صدارت میں وزراء کی میٹنگ منعقد کی گئی۔ یہ حکومت فنڈز اکٹھا کرنے کیلئے کسی روز اسپکٹرم بھی فروخت کرسکتی ہے اور شاید وہ دن آچکا ہے۔ تاہم، ایسا امکان موہوم ہے کہ حکومت ٹیلی کام اسپکٹرم کو اونچی قیمت پر بیچ کر خزانہ کو بھرنے میں کامیاب ہوپائے گی۔ حکومت کے سامنے سوال یہ ہے کہ آیا ان کمپنیوں میں سرمایہ لگایا جاسکتا ہے یا روک دیا جائے؟ ایک راستہ BSNL اور MTNL کو 4G اسپکٹرم دینا ہے۔ مگر یہ کمپنیاں شاید بحالی کی راہ پر واپس نہیں ہوپائیں گی۔ بی ایس این ایل نے آخری مرتبہ 2008ء میں نفع کمایا تھا۔ تب سے کمپنی کو 82,000 کروڑ روپئے کا نقصان ہوا ہے۔ ڈسمبر 2018ء تک یہ عدد 90,000 کروڑ کو تجاوز کرسکتا ہے۔ اس کے ملازمین پر آمدنی کا 66 فی صد خرچ ہورہا ہے، جو 2006ء میں 21 فی صد اور 2008ء میں 27 فی صد تھا۔ پرائیویٹ ٹیلیکام کمپنیوں میں ایمپلائیز پر ریونیو کا محض 5 فی صد حصہ خرچ کیا جاتا ہے۔ بی ایس این ایل کے پاس کبھی 37,200 کروڑ روپئے کا کیاش ریزرو ہوا کرتا تھا۔ آج وہ 8,600 کروڑ روپئے کے نقصانات میں گھری ہے۔ اس صورتحال میں ایڈیٹر فینانشل اکسپریس سنیل جین نے ٹوئٹ کیا کہ اب واحد راستہ یہ ہے کہ 80 فی صد ملازمین کو ہٹا دینا چاہئے، جو ہزاروں کی تعداد ہوتی ہے۔
’بزنس اسٹانڈرڈ‘ میں بھٹاچاریہ نے اپنے ایک آرٹیکل میں بتایا کہ جب منموہن سنگھ حکومت 2014ء میں ختم ہوئی، بی ایس این ایل ملازمین کی تعداد 34.5 لاکھ تھی۔ مودی حکومت نے تین سال میں ’زبردست کام‘ کرتے ہوئے ملازمین کو 32.4 لاکھ تک گھٹا دیا۔ اس تبدیلی کی ستائش کرتے ہوئے بھٹاچاریہ نے لکھا ہے کہ مودی حکومت نے ملازمین کی تعداد 2014-15ء میں 4 فی صد گھٹائی ہے۔لیکن اس کے بعد کٹوتی کی رفتار میں کمی آئی۔ پھر بھی اندرون تین سال ملازمین کی تعداد 2.5 ملین (25 لاکھ) تک گھٹادینا ’غیرمعمولی کارنامہ‘ ہے۔ واجپائی حکومت نے 2000-01ء میں 13 فی صد ملازمین گھٹائے تھے۔ 2011-12ء میں منموہن سنگھ حکومت میں 6.2 فی صد کٹوتی ہوئی۔
کالم نگار کو فکر ہے کہ مودی حکومت نے اپنے کارہائے نمایاں کو گزشتہ دو سال میں بالکلیہ ماند کردیا، جب سرکاری ملازمین میں اضافہ ہونے لگا۔ 2018-19ء تک حکومتی ملازمین کی تعداد بڑھ کر زائد از 36 لاکھ ہوگئی۔ اس پر بھٹاچاریہ کو تشویش ہے۔ زائد از دو لاکھ ملازمین کی گزشتہ سال کے دوران انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ، پولیس، ریلوے اور سیول ڈیفنس میں بھرتی ہوئی ہے۔ ریلوے میں 99,000 خالی جائیدادیں ہیں۔ اے کے بھٹاچاریہ کا تعلق ہندی نیوز کی دنیا سے نہیں ہے۔ این ڈی ٹی وی کی پرائم ٹائم جاب سیریز پر مہینوں دباؤ ڈالا جاتا رہا اور پھر انتخابات کے پیش نظر رکروٹمنٹ شروع کیا گیا۔ بعض کالم نگاروں کا سوال ہے کہ آیا یہ سب محض الیکشن کے سبب کیا گیا۔ سمجھا جاتا ہے کہ الیکشن کی وجہ سے ہی نوجوانوں نے مودی حکومت کے حق میں ووٹ ڈالے۔ تاہم، انھیں مایوسی ہاتھ لگی ہے۔
آج پبلک سیکٹر کمپنیاں سکڑ چکی ہیں۔ اُن کے جاب کی چمک دمک ماند پڑگئی۔ بینکوں کی بھی یہی حالت ہے۔ ان سب باتوں کا یہ مطلب نہیں کہ بینکوں سے لے کر دیگر پبلک سیکٹر تک متعلقہ لوگ مخالف مودی ہوجائیں گے، لیکن معاشی پیشرفت تو درج کرانا پڑے گا۔ میں خود جانتا ہوں کہ بینک سیکٹر کے لوگوں نے مودی حکومت کی بھرپور حمایت کی ہے۔ سوال یہ ہونا چاہئے کہ اگر اس تائید و حمایت پر خوشی ہے تو آیا مودی حکومت ان ملازمین کے تعلق سے اچھائی کا معاملہ کرے گی؟
بزنس نیوز پیپرز کا مشاہدہ کیجئے۔ وہ وکالت کررہے ہیں کہ ملازمین میں کٹوتی درکار ہے۔ حکومت کے مصارف کا بوجھ گھٹایا جانا چاہئے۔ اسی وجہ سے ہندی کے قارئین بزنس نیوز سمجھ پاتے ہیں۔ اس بحث میں بلاجواز مخالفت سے گریزاں رہتے ہوئے حالات کو ضرور سمجھنے کی ضرورت ہے۔آج حکومت کے پاس فنڈز نہیں ہیں۔ جو بانڈز جاری کئے گئے ان سے نفع حاصل کرنے میں کامیابی نہیں ہوئی ہے۔ اب حکومت بیرون ملک سے بانڈ خریدنے کوشاں ہے۔ دنیا کی معاشی حالت بھی اچھی نہیں ہے۔ اگر بیرون ملک بانڈ فروخت نہ ہوں تو حکومت کے سامنے کیا چیلنجس رونما ہوں گے؟ اس کو ضرور سمجھنا چاہئے۔
بزنس اسٹانڈرڈ لگاتار رپورٹ دے رہا ہے کہ پبلک سیکٹر کمپنیوں اور پرائیویٹ کمپنیوں کے بھی منافع گھٹ رہے ہیں۔ ان کے قرض کا بوجھ بڑھ رہا ہے۔ سرکاری شعبہ کی تمام کمپنیوں کا مجموعی حصولیابی میں 12.8 فی صد کی گراوٹ آئی۔ ان کا قرض 13.5 فی صد بڑھا ہے۔ ان کمپنیوں میں حکومت کے حصص بہت ہیں۔ لہٰذا، حکومت کو بھی خسارہ ہوگا۔ بزنس اسٹانڈرڈ نے اپنے اداریہ میں حکومت کی تعریف کی کہ اس نے ان کمپنیوں کو سنبھالنے کی بات کی ہے۔ یہ امکان ہے کہ حکمت عملی کے ساتھ نج کاری کی جائے گی۔ آنے والے دنوں میں مزید چیلنجس ہوں گے۔ اگر نج کاری کے عمل میں تاخیر ہو تو جابس گھٹ جائیں گے۔ جن کے پاس ملازمت ہے ان کی تنخواہ میں اضافہ نہیں ہوگا بلکہ الٹی تبدیلی ہوسکتی ہے۔ تاہم، ایسا تو کسی کے ساتھ بھی نہیں ہونا چاہئے۔
تازہ تبدیلی ہے کہ Suzlon کمپنی نے 172 ملین ڈالر قرض کی عدم واپسی کا اعلان کیا ہے۔ اس کا اثر بینکوں پر پڑے گا۔ حکومت اِن دنوں ملین اور ٹریلین کی باتیں کررہی ہے۔ بزنس اسٹانڈرڈ کی یہ بھی رپورٹ ہے کہ حکومت کے جاری کردہ بانڈز سے حاصل ہونے والے فنڈز کی قدر 30 ماہ کی اقل ترین ہے۔
منسٹر آف اسٹیٹ فینانس انوراگ ٹھاکر نے راجیہ سبھا میں بتایا کہ کرنسی لون 17,651 ملین این پی ایز میں تبدیل ہوچکا ہے۔ تناسب تو محض 2 فی صد ہے لیکن 17,651 کروڑ کا NPA کم نہیں ہوا ہے۔ وزیر نے وجہ بھی بتائی ہے۔ بزنس ناکام ہوئے۔ لون دینے کے عمل میں مناسب طریقہ کار نہیں اپنایا گیا۔ وزیر موصوف یہ نہیں کہیں گے کہ بینکوں پر قرض دینے کیلئے دباؤ ڈالا جاتا رہا ہے۔ مقامی سطح پر قرضے سیاسی مداخلت پر فراہم کئے گئے۔ بی جے پی کا کہنا ہے کہ کئی لوگوں کو قرض دینے سے جابس کا انتظام ہوا، لیکن ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ 17,651 کروڑ روپئے کے قرضے دیئے گئے، جبکہ بزنس ناکام ہوئے اور کئی نوکریاں چلی گئیں۔
معاشی خبروں سے خود کو واقف رکھنے سے بہتر سمجھ آئے گا کہ آپ کا مستقبل کس سمت جارہا ہے۔ حکومت کو چیلنجس درپیش ہیں لیکن لہجہ میں تبدیلی نہیں آئی ہے۔ عوام بالعموم معاشی اثرات کو نہیں سمجھتے ہیں، نہ اپنے طور پر کوئی رائے قائم کرتے ہیں۔ جابس کی فراہمی سے قطع نظر سیاسی لہجہ کی عکاسی ’جئے شری رام‘ کے نعروں سے ہورہی ہے۔ شاید یہ کامیاب فارمولا بن چکا ہے!
اس سوال پر غور کیجئے کہ کیوں یہ خبریں ہندی دنیا میں کبھی زیربحث نہیں آتی ہیں۔ کیوں ہندی کا کوئی اچھا بزنس نیوزپیپر نہیں ہے۔ شاید تب بھی وہ وکالت کریں گے کہ حکومت اپنے ملازمین کی تعداد میں جلد از جلد کٹوتی کرے۔ جب ایسا کیا جاتا ہے تو بزنس نیوزپیپرز حکومت کی ستائش کرنے لگتے ہیں۔ یہ باتیں قصبات اور دیہات تک پہنچانا چاہئے۔
ravish@ndtv.com