سعودی عرب :آثار قدیمہ کی بڑی بستی کے آثار دریافت

,

   

ریاض: سعودی عرب میں ہیرٹیج اتھارٹی نے ’قریہ‘ کے مقام پر اتھارٹی اور آسٹرین یونیورسٹی آف ویانا کے درمیان ایک مشترکہ ٹیم کے ذریعے کی گئی کھدائی کے نتائج کا انکشاف کیا ہے۔ یہ مقام جزیرہ نما عرب کی سب سے بڑی دستاویزی آثار قدیمہ کی بستیوں میں سے ایک ہے جو 300 ہیکٹر رقبے پر پتھروں سے گھرا ہوا ہے۔ کھدائیوں سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ’قریہ‘ نخلستان پچھلی تاریخ سے 1,000 سال پرانا ہے۔ کھدائیوں کے دوران جدید ترین کثیر الشعبہ تحقیقی طریقوں پر عمل کرتے ہوئے قائم کیا گیا تھا۔ قریہ کی بستی تبوک کے علاقے میں واقع ہے جو کہ رہائشی شہر اور زرعی علاقہ ہے۔ مشترکہ ٹیم تیسری صدی قبل مسیح (تقریباً 2900/2600 قبل مسیح) میں تاریخ کا تعین کرنے میں کامیاب رہی۔ 13 کلو میٹر پرمشتمل دیوار کے ساتھ تحقیق پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے علاقے سے ملنے والی اشیا کا ریڈیو کاربن اور متحرک فلیش ٹکنالوجی کے ذریعے باقاعدگی سے مختلف پہلوؤں کا تجزیہ کیا گیا ہے۔سعودی پریس ایجنسی کے مطابق ایک گاوں کی دیواروں کو دریافت کرنے سے پہلے تحقیقی ٹیم کو جو سب سے اہم نتیجہ ملا وہ اس مقام کے سطح مرتفع پر پتھروں کے دائرے کی شکل میں ایک قبرستان ملا۔اس قبرستان میں بارہ سے زائد افراد (خواتین، مرد اور بچے) کو سپرد خاک کیا گیا۔اس میں 1000 موتیوں کی مالا اور مٹی کے 8 مختلف ہار، سجے ہوئے سیرامکس، مادر آف پرل اور گولے شامل تھے۔

ہڈیوں، ہاتھی دانت، قیمتی پتھروں کے علاوہ عقیق، ہیمیٹائٹ، امازونائٹ، شفاف کوارٹز، سبز پتھر، فیروزی اور لاپیس لازولی کے علاوہ رنگین مٹی کے برتن بھی دریافت ہوئے۔یہ دریافت جزیرہ نما عرب کے شمال میں تاریخ کا نیا دریچہ کھولتی ہے، جہاں صحرائی ماحول والے شہری نخلستان کے باشندوں کی زندگی کی خصوصیات کی نشاندہی ہوتی ہے۔قریہ کو تاریخ میں ایک مرکزی بستی کے طور پر بہت اہمیت حاصل ہے جو تین ہزار سال آباد رہی اور اس نے اپنی زبان اور تحریر کو ترقی دی، یہاں تک کہ یہ لوہے کے دور میں شمال مغربی عرب کے اہم ترین مراکز میں شامل ہوئی ۔ یہ ایک تجارتی مرکز تھا جو شمالی عرب کے علاقوں کوجنوبی عرب کے علاقوں سے ملانے والے سنگم پر واقع تھا۔