سفید پوش اٹھے کائیں کائیں کرنے لگے

,

   

لوک سبھا میں ہنگامہ … سمرتی ایرانی کا سونیا گاندھی سے ٹکراؤ
نہرو گاندھی خاندان سے بی جے پی خوفزدہ
رشیدالدین
’’رائی کا پہاڑ بنانا‘‘ یہ کام زیادہ تر سیاسی پارٹیوں اور سیاسی قائدین نے اختیار کرلیا ہے۔ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کیلئے نان اشو کو اشو بناکر مخالفین کو گھیرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ پارلیمنٹ سیشن کے آغاز سے دونوں ایوانوں میں اپوزیشن کا پلڑا بھاری تھا ۔ مہنگائی ، جی ایس ٹی ، اگنی پتھ اور ہندوستانی سر زمین پر چین کی آبادیوں جیسے سلگتے مسائل پر اپوزیشن مباحث کا مطالبہ کر رہا ہے لیکن حکومت فرار کا راستہ اختیار کرتی رہی۔ اپوزیشن ارکان کی معطلی کے ذریعہ ہنگامہ پر قابو پانے کی کوشش کارگر ثابت نہیں ہوئی ۔ سیشن کے باقی ایام اسی طرح گزر جانے کا اندیشہ تھا کہ اچانک بی جے پی کو ایک اشو ہاتھ لگ گیا۔ لوک سبھا میں کانگریس کے قائد ادھیر رنجن چودھری کے ایک جملہ کو لے کر ایوان میں نہ صرف ہنگامہ آرائی کی گئی بلکہ سونیا گاندھی کو شخصی طور پر ٹارگٹ کیا گیا۔ ایوان کی کارروائی کے التواء کے بعد سونیا گاندھی سے سمرتی ایرانی نے بحث تکرار کی اور معاملہ اس قدر آگے بڑھ گیا کہ دوسرے ارکان کو بیچ بچاو کرتے ہوئے تصادم ٹالنا پڑا۔ وزیراعظم نریندر مودی اور اسپیکر لوک سبھا اوم برلا نے اپوزیشن ارکان کو شور و غل اور ہنگامہ سے گریز کا مشورہ دیا لیکن جب برسر اقتدار پارٹی ہنگامہ آرائی کرتے ہوئے کارروائی میں رکاوٹ پیدا کرے تو پھر اسپیکر اور وزیراعظم نے کوئی مداخلت نہیں کی۔ برسر اقتدار پارٹی جب اپوزیشن کا رول ادا کرنے لگے تو اس کا مطلب صاف ہوتا ہے کہ اس کے پاس اپوزیشن کے سوالات کا جواب نہیں ہے ۔ حکومت کے پاس جب کہنے کیلئے کچھ نہیں ہوتا تو کسی ایک مسئلہ کو بنیاد بناکر پلٹ وار کیا جاتا ہے۔ کانگریس کے ادھیر رنجن چودھری نے صدر جمہوریہ کے بارے میں ایسا کیا کہہ دیا کہ بی جے پی نے آسمان سر پر اٹھالیا۔ راشٹرپتی بھون جانے کیلئے کانگریس کے احتجاج کے دوران چودھری نے دروپدی مرمو کو راشٹرپتی کے بجائے ’’راشٹرپتنی‘‘ کہہ دیا اور بعد میں یہ کہتے ہوئے معذرت کرلی کہ وہ چونکہ بنگالی ہیں ، لہذا لغزش زبان ہوئی ہے ۔ کانگریس قائد کی وضاحت اور معذرت کے بعد مسئلہ کو ختم ہوجانا چاہئے تھا لیکن بی جے پی کو کسی مسئلہ کی تلاش تھی۔ حکومت اور بی جے پی نے منصوبہ بند طریقہ سے سونیا گاندھی کو نشانہ بنایا۔ راشٹرپتی کو پتنی کیا کہہ دیا حکومت اور بی جے پی کے پاس قبائل سے محبت امنڈ پڑی۔ دروپدی مرمو کے غریب خاندان ، قبائل سے تعلق اور خاتون ہونے کی یاد آگئی اور سونیا گاندھی کو مخالف غریب ، مخالف خواتین اور مخالف قبائل کہا گیا۔ کانگریس اور سونیا گاندھی پر حملہ کیلئے سمرتی ایرانی کو آگے کردیا گیا۔ ایک دولتمند اور اعلیٰ طبقہ کی خاتون کی زبان سے غریب اور قبائل سے ہمدردی سیاسی مبصرین کے مطابق محض اداکاری دکھائی دے رہی تھی۔ ٹی وی سیریلوں میں اداکاری کے جوہر دکھاتے ہوئے سمرتی ایرانی بیسٹ ایکٹریس کا ایوارڈ حاصل کرچکی ہیں اور اب عملی سیاست میں اپنے تجربہ کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔ بی جے پی کے پاس کوئی غریب خاندان کی خاتون رکن تو ہوگی جن کا تعلق قبائل سے ہے، ان کو یہ مسئلہ اٹھانے اور صدر جمہوریہ کے دفاع میں آگے آنے کا موقع دیا جاسکتا تھا لیکن ایسا نہیں ہوا کیونکہ بی جے پی کو بہترین ڈائلاگس ادا کرنے والی ایکٹریس کی ضرورت تھی۔ کانگریس پر حملہ کی ذمہ داری سمرتی ایرانی کو دیئے جانے کی ایک اور اہم وجہ کانگریس کے ہاتھوں پہلے سے ان کا زخمی ہونا ہے۔ کانگریس پارٹی نے گوا میں سمرتی ایرانی کی دختر کی جانب سے غیر قانونی بار چلانے کا معاملہ بے نقاب کیا تھا۔ زخم خوردہ سمرتی ایرانی کو بدلہ لینے کا موقع فراہم کیا گیا اور ان کے ہر ڈائلاگ سے گوا معاملہ کی برہمی صاف جھلک رہی تھی۔ اپنے غیر قانونی بار معاملہ کی پردہ پوشی کیلئے اداکارہ نے سونیا گاندھی پر شخصی حملے کئے۔ بی جے پی سمرتی ایرانی کے بجائے کسی اور خاتون رکن کو آگے کرتی تو وہ اس قدر آگ نہیں اگل پاتی۔ ظاہر ہے کہ ایک زخمی کو اپنے مخالف پر حملہ کا موقع مل جائے تو وہ بے قابو ہوجاتا ہے۔ کچھ یہی حال لوک سبھا میں سمرتی ایرانی کا تھا ۔ گوا کے زخم کی تکمیل کا اثر تھا کہ وہ سونیا گاندھی کے قریب پہنچ کر بحث و تکرار کرنے لگیں۔ دلچسپ بات یہ دیکھی گئی کہ کانگریس قائد کے جس جملہ کو صدر جمہوریہ کی توہین قرار دیا جارہا ہے ، اس جملہ کو بی جے پی قائدین دہرا رہے ہیں۔ گودی میڈیا کے اینکرس بھی اس لفظ کو بار بار ادا کر رہے ہیں۔ کیا یہ لوگ صدر جمہوریہ کی توقیر کر رہے ہیں یا پھر توہین ؟ ظاہر ہے کہ جب لفظ کو توہین تصور کیا گیا تو اسے دہرانا بھی توہین کے مترادف ہے۔مودی حکومت کو دروپدی مرمو سے ہمدردی نہیں بلکہ ان کی آڑ میں کانگریس اور سونیا گاندھی کو نشانہ بنانا مقصد ہے۔ ایس سی اور ایس ٹی طبقات سے ہمدردی کا مظاہرہ کرنے والی مودی حکومت نے دلت طبقہ سے تعلق رکھنے والے رامناتھ کووند کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ کووند کی وداعی تقریب کا ایک ویڈیو وائرل ہوا جس میں رامناتھ کووند کو مودی نظر انداز کرتے ہوئے دیکھے گئے ۔ سابق صدر جمہوریہ نے مودی کو نمستے کیا لیکن وہ کسی اور سمت دیکھتے رہے۔ دلت طبقہ کے صدر جمہوریہ کی اس توہین پر کون معافی مانگے گا۔ سوشیل میڈیا میں یہ ویڈیو پر فلمی نغمہ جوڑ دیا گیا۔ ’’مطلب نکل گیا ہے تو پہچانتے نہیں‘‘
بات جب توہین آمیز الفاظ کے استعمال کی چل پڑی ہے تو بی جے پی قائدین کو وزیراعظم نریندر مودی اور دیگر قائدین کی جانب سے سونیا گاندھی کے خلاف استعمال کئے گئے الفاظ کا جائزہ لینا چاہئے ۔ سونیا گاندھی کو کانگریس کی ’’ودھوا‘‘ اور ’’50 کروڑ کی گرل فرینڈ‘‘ جیسے الفاظ سے نشانہ بنایا گیا لیکن کسی نے اعتراض تک نہیں کیا۔ آج جب صدر جمہوریہ کو کسی نے راشٹرپتنی کہہ دیا تو اسے دستوری عہدہ کی توہین سے جوڑ دیا گیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ توہین آمیز الفاظ کے استعمال کا حق کیا صرف بی جے پی کو حاصل ہے؟ بی جے پی دراصل نہرو اور گاندھی خاندان سے خوفزدہ ہیں ، لہذا انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ اور لوک سبھا میں اس خاندان کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی ۔ لفظ راشٹرپتنی کے استعمال پر ہندی کے ماہرین کو غور کرنا ہوگا ۔ کوئی خاتون صدر جمہوریہ ہو تو ہندی میں نئی اصطلاح ایجاد کی جانی چاہئے ۔ پارلیمنٹ میں جی ایس ٹی کے مسئلہ پر بحث کا مطالبہ کیا گیا تو حکومت نے جواب دیا کہ وزیر فینانس نرملا سیتا رامن بیمار ہیں۔ نرملا سیتا رامن کی بیماری اچانک اس وقت ختم ہوگئی جب انہیں سمرتی ایرانی کے ساتھ مل کر سونیا گاندھی کو نشانہ بنانا تھا ۔ ہنگامہ کے وقت وہ راجیہ سبھا میں تھیں لیکن انہوں نے میڈیا کے روبرو سونیا گاندھی کی مذمت کی ۔ عوامی مسائل سے زیادہ وزیر فینانس کو صدر کانگریس پر حملہ سے دلچسپی ہے۔ ملک کے موجودہ معاشی بحران ، مہنگائی اور بیروزگاری کا راست تعلق وزارت فینانس سے ہے لیکن نرملا سیتا رامن علالت کے نام پر پارلیمنٹ سے دور ہیں۔ پارلیمنٹ سے معطل کئے گئے ارکان نے احاطہ میں 50 گھنٹوں تک احتجاج منظم کیا اور یہ احتجاج کھلے آسمان کے نیچے جاری رہا۔ حکومت کے کسی نمائندہ کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ احتجاجی ارکان سے ملاقات کرتے ہوئے ان کا موقف جاننے کی کوشش کی جائے۔ حکومت مہنگائی ، جی ایس ٹی اور دیگر سلگتے مسائل پر مباحث کے لئے تیار نہیں ہیں، لہذا ایوان کو ہنگامہ آرائی کی نذر کردیا جائے گا۔ ادھیر رنجن چودھری کے ایک جملہ کی آڑ میں صدر جمہوریہ کو تنازعہ میں گھیر لیا گیا ہے حالانکہ دستوری عہدوں کے بارے میں مباحث کی ضرورت نہیں ہے۔ صدر جمہوریہ کی ذمہ داری سنبھالتے ہی بی جے پی نے دروپدی مرمو کے ذہن کو مخالف اپوزیشن بنانے کی کوشش کی ہے ۔ انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ نے نیشنل ہیرالڈ معاملہ میں سونیا گاندھی اور راہول گاندھی سے پوچھ تاچھ کی ہے ۔ سونیا گاندھی کو دو دن دفتر طلب کیا گیا جبکہ 75 سالہ کانگریس صدر صحت سے متعلق کئی مسائل کا شکار ہیں اور وہ جسمانی اور ذہنی طور پر کوئی دباؤ برداشت کرنے کی متحمل نہیں ہوسکتیں۔ عمر اور علالت کا خیال کئے بغیر انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ نے گھنٹوں پوچھ تاچھ کی ۔ ظاہر ہے کہ مرکزی حکومت کے اشارہ پر ہی یہ کارروائی کی گئی۔ راہول گاندھی کو کئی دن تک ای ڈی دفتر کے چکر کاٹنے پڑے ۔ ملک میں کانگریس اگرچہ کمزور موقف میں ہے لیکن بی جے پی پر اس کا خوف ابھی بھی مسلط ہے۔ بی جے پی کو اندازہ ہوچکا ہے کہ عوام کبھی بھی اقتدار سے بیدخل کرسکتے ہیں اور کانگریس کی قیادت میں حکومت تشکیل پائے گی ۔ اسی خوف کے نتیجہ میں کانگریس قائدین کو تحقیقاتی ایجنسیوں کے ذریعہ نشانہ بنایا جارہا ہے ۔ بی جے پی اقتدار میں سی بی آئی ، انکم ٹیکس اور انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ ادارے متحرک ہوچکے ہیں۔ پارلیمنٹ کی صورتحال پر راحت اندوری نے کیا خوب کہا ہے ؎
عجیب رنگ تھا مجلس کا خوب محفل تھی
سفید پوش اٹھے کائیں کائیں کرنے لگے