سوال پوچھنے پر دھمکیاں

   

جمہوریت میں ہر شہری کو اپنے منتخب نمائندوں سے سوال پوچھنے کا حق ہے ۔ ہماری جمہوریت میں ہر شہری کو یہ حق دیا گیا ہے اور جو منتخب عوامی نمائندے ہوتے ہیں وہ عوام کو جواب دینے کے پابند ہوتے ہیں۔ یہ ان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ عوام کے سوالات کے جواب دئے جائیں۔ ویسے تو اپوزیشن جماعتوں کے سوال کے جواب بھی دئے جانے چاہئیں اور اپوزیشن مسلسل حکومت اور اس کے نمائندوںسے سوال کرتی ہے لیکن حالیہ عرصہ میں دیکھا گیا ہے کہ اس طرح سے سوال کرنے والوںکو برداشت نہیں کیا جا رہا ہے ۔ سوال کرنے والوں کو کسی نہ کسی طرح سے نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ ان کے خلاف مقدمات درج کئے جا رہے ہیں۔ جیلوںکو بھیجا جا رہا ہے ۔ حکومت سے محض اختلاف رکھنے والوںکو کئی کئی مہینے جیل کی سلاخوں کے پیچھے بند کیا جا رہا ہے ۔ ان کی ضمانت تک منظور ہونے کا موقع نہیں دیا جا رہا ہے ۔ اس کے برخلاف حکومت کی ہاںمیں ہاں ملانے والوں اور حکومت کی تائید کرنے والوںکو قانون کی سنگین خلاف ورزیوں پربھی آزاد چھوڑ دیا جا رہا ہے ۔ ان سے کوئی سوال نہیں پوچھا جاتا ۔ ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی ۔ نفاذ قانون کی ایجنسیاں تک بھی ان کے تعلق سے نرم اور ہمدردانہ رویہ رکھنے پر مجبور ہوگئی ہیں۔ بی جے پی کے قائدین میں یہ رویہ پیدا ہوگیا ہے کہ وہ کسی سے سوال سننا ہی نہیںچاہتے ۔ وہ کسی کے سامنے بھی جواب دینے کو تیار نہیں ہیں۔ نہ میڈیا کے سوالات کے جواب دئے جا رہے ہیں اور نہ عوام کے سوالات کے جواب دئے جا رہے ہیں۔ اپوزیشن کی جانب سے پوچھے جانے والے سوالات کا بھی کوئی جواب نہیں دیا جا رہا ہے ۔ پارلیمنٹ اور ریاستی اسمبلیوں میں بھی اپوزیشن کو سوال کرنے کے حق سے محروم کیا جا رہا ہے ۔ اگر انہیں سوال کرنے کا موقع دیا بھی جاتا ہے تو اس سوال کا جواب نہیں دیا جاتا۔ کسی نہ کسی بہانے سے بات کا رخ موڑ دیا جاتا ہے ۔ سوال کرنے والوں ہی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ایسے ایسے جملے کہے جاتے ہیں جن کی ماضی میں کوئی نظیر نہیں ملتی ۔ حد تو یہ ہوگئی کہ سوال کرنے والوںکو اور حکومت کو تنقید کا نشانہ بنانے والوںکو ملک کا غدار تک کہہ دیا جاتا ہے ۔
یہ روایت بی جے پی کے تمام قائدین میں عام بات ہوگئی ہے ۔ یہ لوگ آمرانہ رویہ اختیار کرچکے ہیں اور کوئی مخالفانہ بات کو برداشت کرنے تیار نہیںہے ۔ مدھیہ پردیش کے ایک وزیر نے تو ایک تقریب میں ان سے سوال کرنے والے کو کمر توڑ دینے کی دھمکی تک دیدی ہے ۔ ایسا لگ رہا ہے کہ بی جے پی کے قائدین اور اس کے عوامی نمائندے خود کو ماورائے قانون اتھاریٹی سمجھنے لگے ہیں۔ وہ خود کو قانون سے بالاتر سمجھ رہے ہیںاور جس عوام کے ووٹ سے وہ منتخب ہوئے ہیںاور وزارت پائی ہے انہیں بھی خاطر میں لانے تیار نہیں ہیں۔ عوام کی جانب سے اپنے نمائندوں سے اور حکومت کے ذمہ داروں سے سوال پوچھنا ایک فطری عمل ہے ۔ ہندوستان میں اس کی اجازت ہے ۔ جمہوریت میں ایسا ہوتا آیا ہے ۔ ہماری جمہوریت کی یہی انفرادیت ہے کہ اس میں عوام کو کامل اختیارات اور اہمیت دی گئی ہے تاہم بی جے پی کے قائدین کسی بھی حال میں سوال کا جواب دینا نہیں چاہتے ۔ وہ سوال پوچھنے والوںکو برداشت کرنے تیار نہیں ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ اپنی مرضی اور احکام کو سبھی پر مسلط کردیا جائے ۔ بزور طاقت حکومت چلانے کی روایت قائم کی جا رہی ہے ۔ اکثریت کے زعم کو ایک عام روایت بنایا جا رہا ہے جو ملک کی جمہوریت کیلئے ٹھیک نہیں کہا جاسکتا ۔ جمہوریت کے جو بنیادی اصول اور ضوابط ہیں ان کی خلاف ورزی کی کسی کو بھی اجازت نہیں دی جانی چاہئے ۔ عوام کو سوال پوچھنے کے حق سے کوئی بھی محروم نہیں کرسکتا ۔
سوال پوچھے جانے پر بات کا رخ موڑ دینا بی جے پی قائدین کا ہنر بن گیا ہے ۔ اگر کوئی صحافی سوال کرے تو اسے ایک نئے انداز سے نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ اسے اپوزیشن کا ہمدرد قرار دیا جاتا ہے ۔ عوام سوال پوچھیں تو انہیں دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ سماجی جہد کار اگر سوال کرنے پر آئیں تو ان کے خلاف مقدمات درج کئے جاتے ہیں۔ طلبا برادری سوال کرنے لگے تو انہیںقوم مخالف قرار دیا جاتا ہے ۔ یہ روایت آمرانہ طرز حکمرانی کی ہے ۔ یہ ہندوستانی جمہوریت کی روایت نہیں ہے ۔ ہمارے ملک میں جمہوری اقدار کو مستحکم کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے ۔ حکومت اور اس کے ذمہ داروں کو یہ احساس ہونا چاہئے کہ وہ ملک اور قوم کے سامنے جوابدہ ہیںاور اس روایت سے انحراف کی کسی کو اجازت نہیں ہوسکتی ۔