سوشیل میڈیا اور ہماری ذمہ داری

   

اکیسویں صدی کی آمد کے ساتھ جہاں ترقی اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے بہت سے دہانے کھل گئے ہیں وہیں ڈیجیٹل انقلاب برپا ہو گیا ہے اور علم اور معلومات کا خزانہ انسان کے ہاتھوں میں آگیااور ابلاغ عامہ( Mass media) ماس کمیونیکیشن اس قدر آسان ہو گیا کہ ہر خاص اور عام تک اس کی رسائی ممکن ہو گئی ہے۔ اور سوشل میڈیا/ ذرائع ابلاغ اسی کے ایک شاخ ہے۔دراصل اب ہماری دنیا ذرائع ابلاغ کی دنیا بن چکی ہے۔ اسی لئے آج ساری دنیا گلوبل ولیج بن چکی ہے۔ روابط، تبادلہ خیال پیغامات اور اشتہارات جو چند سال پہلے ایک مشکل عمل تھا۔ آج بہت آسان ہو گیا ہے۔ سوشل میڈیا انٹرنیٹ سے جڑا ایک ایسا نیٹ ورک ہے جو افراد اور ساتھ ہی اداروں کو ایک دوسرے سے مربوط ہونے کا موثر ترین ذریعہ بن چکا ہے۔ ٹیکنالوجی آج انسان کے ضرورت بن چکی ہے۔ اس دنیا میں ذرائع ابلاغ کی طاقت اتنی بڑھ گئی ہے کہ کبھی ذرائع ابلاغ زندگی کا حصہ ہوا کرتی تھی۔ مگر آج ایسا محسوس ہوتا ہے کہ زندگی ذرائع ابلاغ کا حصہ بن گئی ہے۔ ذرائع ابلاغ کی پہلی صورت ’’اخبار‘‘ تھا، اور اخبار کا تشخص ’’خبر‘‘ سے متعین ہوتا تھا۔ پھر ریڈیو آیا اور اگر کسی کو پیغام ارسال کرنا ہوتا تو خطوط بھیجا جاتا تھا یا اگر کسی سے بات چیت کرنی ہوتی تو ٹیلیفون کے ذریعہ سے بات چیت کی جاتی تھی۔ فلموں، ڈاکیمنٹوری اورا سپورٹس اس طرح کی بہت ساری چیزیں تفریح کا سامان بنتے چلے گئے۔ ڈیجیٹل انقلاب کے ساتھ ہی انٹرنیٹ کی آمد ہوئی اور اس کا حصول بالکل آسان ہوگیا۔ اب تو یوں لگتا ہے۔ فلمیں، پیغامات، ویڈیو کالنگ، خبریں اور سپورٹس سب کو یکجا کر دیا گیا ہے، بس ایک کلک کیا اور سب حاضر ہیں۔ جیسے کوئی جادو کی چھڑی ہمارے ہاتھ لگ گئی ہے۔ بلاشبہ ہر دور کا ایک چیلنج ہوتا ہے۔ اگر اس کا صحیح استعمال کیا جائے تو ہمارے لئے سود مند ہوگا ورنہ الٹا ہمارے لئے وبال جان بن جائے گا۔ جس طرح اللہ تعالی نے کائنات کی تمام چیزوں کو ہمارے لئے مسخر کیا ہے۔ ٹیکنالوجی بھی اسی کی ایک شکل ہے۔اور اسے ہم اپنے مفاد کیلئے بروئے کار لائیں۔ دراصل نوجوان نسل کسی بھی قوم کا سرمایہ ہوتے ہیں۔ آج ہمارے نوجوان نسلوں کو اس میں الجھا دیا گیا ہے۔ جس سے وہ اپنے مقصد اور ترجیحات کو بھول کر غفلت کا شکار ہیں۔ اس لئے کہ وہ نئی بھول بھلیوں میں وہ کھوتے جارہے ہیں۔’’ اگر ہم اپنی قوم اور ملت کا ایک بہترین خواب دیکھ رہے ہیں تو نوجوان نسلوں کے والدین کو بھی اپنی ذمے داری کا،احساس پیدا کرنا پڑے گا۔آج وقت کی ضرورت ہے کہ ہم ٹیکنالوجی کا بہترین استعمال کر کے اپنے دین اور انسانیت کی خدمت کریں۔