سپریم کورٹ نے ہندو فریق سے تین نکات پر و ضاحت طلب کی ہے

,

   

ہندو گروپس کا دعوی ہے کہ رام مندر کے ڈھانچہ پر مسجد کی تعمیرکی گئی ہے‘ جہاں پر بھگوان رام کی پیدائش ہوئی ہے

نئی دہلی۔بابری مسجد‘رام جنم بھومی تنازعہ پر مالکا نہ حق کے متعلق دائر مقدمہ کی سنوائی کرنے والے پانچ رکنی سپریم کورٹ کی بنچ نے ہندو فریقین سے تین نکات پر وضاحت مانگی ہے جو سال2010میں

الہ آبا د ہائیکورٹ کی جانب سے ایودھیا میں متنازعہ اراضی کو تین حصوں میں تقسیم کرنے اور اس کے دعویداروں میں بانٹنے کے ضمن میں سنوائی گئے فیصلے پر بحث کررہے ہیں۔

مذکورہ بنچ جس کی نگرانی چیف جسٹس آف انڈیا(سی جے ائی) رنجن گوگوئی کررہے ہیں نے سینئر ایڈوکیٹ پی این مشرا سے سوالات کئے جو رام مندر کمیٹی کے وکیل ہیں کہ آیاکہ سابق میں اس جگہ پر مسجد کی نفی کی جاسکتی ہے‘

آیا متنازعہ مقام پر جوڈھانچہ موجو د تھا وہ کیاواقعتا مسجد تھا۔ یاکوئی بادشاہ ایک وقت ریاست کی دولت سے مقرر کرسکتا ہے یا پھر اس کو پہلے وہ خریدنا ہوگا؟۔

اس بنچ میں جسٹس ایس اے بابڈی‘ ڈی وائی چندرچوڑ‘ اشوک بھوشن اور ایس اے نظیر بھی موجود ہیں۔ سال1992ڈسمبر میں ہندو کارکنوں نے ایودھیا کے متنازعہ مقام پر رام مندر کی تعمیر کی مہم شروع کی او روہا ں پر موجودہ سولہویں صدی کی مسجد کو شہیدکردیاتھا۔

ہندو گروپس کا دعوی ہے کہ رام مندر کے ڈھانچہ پر مسجد کی تعمیرکی گئی ہے‘ جہاں پر بھگوان رام کی پیدائش ہوئی ہے۔

سال 2010میں الہ آباد ہائی کورٹ کی جانب سے سنائے گئے فیصلے کے خلاف عدالت عظمی میں چودہ درخواستیں دائر کی گئی ہیں‘ جس میں 2.77ایکڑاراضی ایودھیامیں کو مساوی طور پر تین فریقین میں تقسیم کرنے کا فیصلہ سنایاگیاتھا۔

مذکورہ سنی وقف بورڈ‘ نرموہی اکھاڑہ او ررام للا وراجمان۔ مشرا نے دعوی کیاہے کہ قرآن میں متنازعہ اراضی پر مسجد کی تعمیر سے منع کیاہے۔

اس کے علاوہ انہوں نے بحث میں کہاکہ اب تک یہ ثابت نہیں ہوسکا ہے کہ متنازعہ کس نے تعمیر کی ہے۔