سکریٹریٹ کی مساجد کی بازیابی کے حق میں سوشل میڈیا پر مہم میں شدت

   

سرکاری عہدوں سے استعفیٰ کے لیے دبائو، مقامی جماعت کی خاموشی موضوع بحث
حیدرآباد۔ سکریٹریٹ کے احاطہ میں دو مساجد کے انہدام کے مسئلہ پر مسلم سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی خاموشی کو سوشل میڈیا کے ذریعہ عوام تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں۔ مساجد کے انہدام کو تقریباً دو ہفتے گزر گئے لیکن حکومت کی تائید کرنے والے سیاسی اور مذہبی تنظیموں نے احتجاجی بیانات تک خود کو محدود کرلیا اور دونوں مساجد کی بازیابی کے لیے کوئی لائحہ عمل اختیار نہیں کیا گیا۔ مسلم قیادت کی خاموشی سے حکومت کو حوصلہ ملا اور سکریٹریٹ کے احاطہ میں ایک مسجد کی تعمیر کا وعدہ کرتے ہوئے اپنی ذمہ داری کی تکمیل کرلی۔ دونوں مساجد کی موجودہ مقامات پر دوبارہ تعمیر کے حق میں سوشل میڈیا پر مہم شدت اختیار کرچکی ہے۔ مساجد کی بازیابی کے لیے سرکاری عہدوں پر فائز افراد پر استعفیٰ کے حق میں دبائو بڑھنے لگا ہے۔ حکومت کی تائید کرنے والی یونائیٹیڈ مسلم فورم کے بعض ذمہ دار مختلف سرکاری اداروں میں اہم عہدوں پر فائز ہیں۔ عنبر پیٹ کی مسجد یکخانہ کی شہادت کے بعد سرکاری عہدوں پر فائز افراد سے استعفیٰ کی مانگ کی گئی تھی لیکن یہ مہم دیرپا ثابت نہیں ہوئی۔ سکریٹریٹ کی مساجد کے انہدام کے بعد فورم میں شامل بعض تنظیموں نے سرکاری عہدوں پر فائز افراد سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا ہے تاکہ حکومت پر دبائو بنایا جاسکے۔ باوثوق ذرائع کے مطابق فورم کے صدرنشین سرکاری عہدے سے استعفیٰ پر غور کررہے ہیں اور انہوں نے اس سلسلہ میں فورم کے بعض ذمہ داروں سے مشاورت کی۔ بتایا جاتا ہے کہ بہت جلد فورم کا مشاورتی اجلاس طلب کرتے ہوئے سرکاری عہدے سے استعفیٰ کا اعلان کیا جائے گا۔ حکومت حلیف جماعت اور مسلم تنظیموں کے مطالبے کے باوجود چیف منسٹر نے قائدین کو ملاقات کا وقت نہیں دیا ہے۔ دوسری طرف برسر اقتدار پارٹی سے تعلق رکھنے والے اقلیتی قائدین کی خاموشی پر بھی سوشل میڈیا میں نکتہ چینی کی جارہی ہے۔ ٹی آر ایس کے بعض اقلیتی قائدین نے مساجد کے انہدام کی کھل کر مخالفت کی اور چیف منسٹر کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ ٹی آر ایس کے اقلیتی قائدین موجودہ حالات میں خاموشی کو اپنے لیے نجات تصور کررہے ہیں۔ نرسمہا رائو کی صدی تقاریب منانے کی مسلم جماعتوں نے مخالفت کی لیکن کے سی آر نے کوئی پرواہ نہیں کی۔ اب تو وہ نرسمہا رائو کی دختر کو قانون ساز کونسل کی رکنیت دینے کا فیصلہ کرچکے ہیں۔ مقامی جماعت کے عوامی نمائندوں نے کورونا ٹسٹنگ مراکز کے قیام کے لیے وزیر صحت سے نمائندگی کی تھی اور مقامی جماعت کے صدر ترقیاتی پروگراموں میں کے ٹی آر اور دیگر وزراء کے ساتھ شریک ہوئے۔ سوشل میڈیا میں عوام سوال کررہے ہیں کہ دونوں مواقع پر سکریٹریٹ کی مساجد کے سلسلہ میں نمائندگی کیوں نہیں کی گئی؟