سیاست نفرتوں کا زخم بھرنے ہی نہیں دیتی

,

   

اورنگ زیب اور ٹیپو سلطان پر نفرت کی سیاست
اڈیشہ ٹرین حادثہ کو فرقہ وارانہ رنگ

رشیدالدین
’’کانگریس برسر اقتدار آئے گی تو کرناٹک میں فسادات ہوں گے‘‘ یہ کسی اور نے نہیں بلکہ امیت شاہ نے کرناٹک کی انتخابی مہم کے دوران کہا تھا۔ ظاہر ہے کہ ملک کے وزیر داخلہ کے تحت انٹلیجنس ایجنسیاں ہوتی ہیں اور ہوسکتا ہے کہ وزیر داخلہ نے انٹیلجنس ان پٹ کی بنیاد پر یہ بیان دیا ہو۔ امیت شاہ کے بیان پر کسی نے بھروسہ اس لئے بھی نہیں کیا کیونکہ انتخابی مہم کے دوران مودی۔امیت شاہ جوڑی بے تکے اور اوٹ پٹانگ جملہ بازی کے لئے شہرت رکھتے ہیں۔ وزیراعظم اور وزیر داخلہ کے ذمہ دار عہدوں پر فائز ہوتے ہوئے غیر ذمہ دارانہ بیانات زیب نہیں دیتے اور ایک دن وہ آئے گا جب عوام کا بھروسہ ان عہدوں پر سے اٹھ جائے گا۔ امیت شاہ نے کرناٹک میں فسادات کی بات کہی لیکن صورتحال تو منی پور، مہاراشٹرا اور اترپردیش کی ابتر ہے جو اتفاق سے بی جے پی زیر اقتدار ریاستیں ہیں۔ منی پور کے حالات تو قابو سے باہر دکھائی دے رہے ہیں جبکہ امیت شاہ نے دورہ کرتے ہوئے حالات کے نارمل ہونے کا دعویٰ کیا تھا ۔ تشدد میں 70 تا 80 افراد کی موت واقع ہوئی ۔ نیم فوجی دستوں اور پولیس پر حملوں کا سلسلہ جاری ہے۔ منی پور جل رہا ہے لیکن گودی میڈیا کی آنکھیں بند ہیں۔ اگر یہی واقعات کسی غیر بی جے پی ریاست میں رونما ہوتے تو چاٹو کار اینکرس اور پاپا کی پریاں گلا پھاڑ کر واقعات کا رونا روتے اور حکومت کو جی بھر کے گالیاں دیتے۔ منی پور کے حالات پر میڈیا میں سناٹا کچھ اس طرح ہے جیسے منی پور ہندوستان کا حصہ نہیں۔ موجودہ وقت کے سردار پٹیل یعنی امیت شاہ کا دورہ بھی ناکام ثابت ہوا۔ دوسری طرف مہاراشٹرا کے کولہا پور میں اورنگ زیب اور ٹیپو سلطان کے نام پر فساد پھوٹ پڑا۔ کرناٹک میں فسادات کی دھمکی دینے والے امیت شاہ شائد منی پور اور مہاراشٹرا کہنا چاہتے تھے اور لغزش زبان کے سبب کرناٹک نکل گیا۔ کانگریس اقتدار میں تو کرناٹک پرامن لیکن بی جے پی زیر اقتدار ریاستوں میں تشدد پھوٹ پڑا۔ گودی میڈیا کو جیسے سانپ سونگھ گیا ۔ کسی کی ہمت نہیں جو حکومت سے سوال کرے۔ سیاسی مبصرین کے مطابق کرناٹک کی شکست کے بعد بی جے پی جارحانہ فرقہ پرست ایجنڈہ پر لوٹنا چاہتی ہے تاکہ ریاستوں اور مرکز میں اقتدار کو بچایا جاسکے۔ شیوسینا میں پھوٹ کے ذریعہ بی جے پی نے مہاراشٹرا میں حکومت قائم تو کرلی لیکن انحراف کے مسئلہ پر سپریم کورٹ کے فیصلہ نے ادھو ٹھاکرے کی مقبولیت میں اضافہ کردیا ہے ۔ لہذا اصل مسئلہ سے عوام کی توجہ ہٹانے کیلئے فرقہ وارانہ اور نفرت کے ایجنڈہ میں الجھادیا گیا۔ اورنگ زیب ہو کہ ٹیپو سلطان دونوں تاریخی حقیقت ہیں جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اورنگ زیب اور ٹیپو سلطان نے کئی مندروں کی امداد کی اور جاگیرات سے نوازا۔ ٹیپو سلطان نے انگریزوں کے خلاف لڑتے ہوئے ہندوستان پر اپنی جان نچھاور کردی لیکن افسوس کہ سماج کو ہندو مسلم میں تقسیم کرنے کیلئے دونوں کو مخالف ہندو کا لیبل لگادیا گیا۔ ان دونوں سے اتنی نفرت ہے تو مندروں کو دی گئی امداد اور جاگیرات کو واپس کردیں۔ انگریزوں پر ٹیپو سلطان کے رعب ، دبدبہ اور خوف کا یہ عالم تھا کہ شہادت کے باوجود قریب جانے سے انگریز کمانڈرس خوفزدہ تھے کہ کہیں شیر جاگ نہ جائے۔ آج بھی انگریز ٹیپو سلطان کے نام سے گھبرا جاتے ہیں۔ انگریز تو چھوڑیئے مخالف ٹیپو عناصر ٹیپو سلطان کی مزار کے قریب جانے سے ڈرتے ہیں۔ بی جے پی اور سنگھ پریوار کے کاغذی شیر ٹیپو سلطان کے شہر جانے میں خوف محسوس کرتے ہیں ۔ مہاراشٹرا میں اورنگ زیب سے موسوم شہر اورنگ آباد کا نام تبدیل کردیا گیا ۔ تعلیمی نصاب سے بھلے ہی مغلوں اور ٹیپو سلطان کے اسباق حذف کردیئے گئے لیکن انہیں تاریخ سے مٹایا نہیں جاسکتا۔ مغل حکمرانوں اور ٹیپو سلطان کے بغیر ملک کی تاریخ ادھوری رہے گی۔ حب الوطنی اور وطن پرستی کا دعویٰ کرنے والوں کی عصبیت اور مسلم دشمنی کا یہ عالم ہے کہ انگریزوں سے لڑنے والا ٹیپو سلطان پسند نہیں اور انگریزوں سے معافی مانگنے والا ساورکر مجاہد آزادی بن چکا ہے۔ گاندھی جی کے قاتل کو قومی ہیرو کے طور پر پیش کیا جانے لگا۔ اگر یہی معیارات رہے تو آگے چل کر مودی اور امیت شاہ کو بھی قومی ہیروز کے طور پر یاد کیا جائے گا۔ ہاں ! تو گفتگو کا آغاز ہم نے کرناٹک میں فسادات سے متعلق امیت شاہ کے بیان سے کیا تھا ۔ منی پور اور مہاراشٹرا بی جے پی زیر اقتدار ریاستوں کے بعد ڈبل انجن سے چلنے والی اترپردیش ریاست کا رخ کرتے ہیں۔ یوگی ادتیہ ناتھ کی حکومت ہے یا پھر جنگل راج ۔ پولیس کی تحویل میں عتیق احمد اور ان کے بھائی کو موت کے گھاٹ اتارنے کا واقعہ ابھی ذہنوں میں تازہ تھا کہ لکھنو کی عدالت میں جج کے سامنے ایک گینگسٹر کو گولی ماردی گئی اور جج کو جان بچانے کیلئے ٹیبل کے نیچے چھپنا پڑا۔ امیتابھ بچن کی قدیم فلم ’’اندھا قانون‘‘ کی یاد تازہ ہوگئی جس میں ویلن کو کمرہ عدالت میں ہلاک کیا جاتا ہے ۔ فلموں میں دکھائی گئے واقعات پر اترپردیش کے لکھنو کی عدالت میں عمل کیا گیا ۔ قانون کی آنکھوں کے سامنے اور پھر عدلیہ کے روبرو گولیوں سے بھون دینے کے واقعات پر گودی میڈیا میں سناٹا چھایا ہوا ہے۔ ان واقعات کو گینگسٹرس کے آپسی تنازعہ اور ایک دوسرے کے خلاف انتقامی کارروائیوں کے طورپر پیش کیا جارہا ہے ۔ اگر یہی واقعات مغربی بنگال ، بہار ، راجستھان اور پنجاب میں ہوتے تو جنگل راج کہتے ہوئے اینکرس ٹی وی چیانلس پر بے قابو دکھائی دیتے۔ کیا مجال کسی اینکر کی جو یوگی ادتیہ ناتھ سے سوال کرے۔ جنگل راج لفظ صرف غیر بی جے پی ریاستوں کے لئے ہے ۔
آر ایس ایس اور سنگھ پریوار کو 2024 ء لوک سبھا انتخابات میں شکست کا خوف ستانے لگا ہے۔ آر ایس ایس نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ملک میں مودی میجک بے اثر ہونے لگا ہے اور ہندوتوا کا نظریہ بھی ووٹ حاصل کرنے کے لئے کافی نہیں۔ ان حالات میں آر ایس ایس اور سنگھ پریوار نے فرقہ وارانہ ایجنڈہ میں شدت پیدا کرتے ہوئے بھولے بھالے ہندوؤں کو بی جے پی کے حق میں موڑنے کی منصوبہ بندی کرلی ہے جس کے تحت ملک میں ہر واقعہ کو مذہبی رنگ دینے اور مسلمانوں کو ذمہ دار قرار دینے کی مہم جاری ہے۔ گزشتہ دنوں اترپردیش کے بلند شہر میں بعض مندروں پر حملہ کرتے ہوئے مورتیوں کو نقصان پہنچایا گیا۔ ان واقعات کے فوری بعد گودی میڈیا اور سوشیل میڈیا دونوں پر مسلمانوں کو ذمہ دار قرار دیا گیا کیونکہ مندر پر ظاہر ہے کہ مسلمانوں کے علاوہ کوئی اور حملہ تو نہیں کرسکتا۔ فرقہ وارانہ رنگ دیتے ہوئے بی جے پی کے ووٹ بینک میں اضافہ کی کوششیں اس وقت ناکام ثابت ہوئیں جب پولیس نے حملہ کے چار اصل خاطیوں کو گرفتار کرلیا اور یہ چاروں مسلمان نہیں تھے۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ پولیس نے جب چاروں خاطیوں کو ناموں کے ساتھ میڈیا کے روبرو پیش کیا تو گودی میڈیا نے کوئی تشہیر نہیں کی۔ گزشتہ برسوں میں ملک میں کئی مساجد اور چرچس پر حملوں کے واقعات ہوئے اور کئی ریاستوں میں مسلمانوں کو نماز عید ادا کرنے سے روکا گیا۔ رام نومی کے موقع پر مساجد پر بھگوا پرچم لہرائے گئے لیکن کبھی بھی گودی میڈیا اس قدر بے چین دکھائی نہیں دیا۔ اڈیشہ کے بالاسور میں ٹرین سانحہ کے لئے بھی مسلمانوں کو ذمہ دار قرار دینے کی کوشش کی گئی ۔ سوشیل میڈیا میں نفرت کے سودا گروں نے ایک شخص کی تصویر وائرل کرتے ہوئے لکھا کہ یہ شخص جس کا نام شریف ہے، مقامی اسٹیشن ماسٹر ہے جو حادثہ کے بعد فرار ہوچکا ہے۔ تحقیقات کے دوران یہ پتہ چلا کہ مقامی اسٹیشن ماسٹر ہندو ہے اور شریف نامی کوئی ملازم اسٹیشن میں موجود نہیں۔ جس شخص کی تصویر کو شریف دکھاکر وائرل کی گئی وہ دراصل کسی اور اسٹیشن ماسٹر کی ہے۔ حد تو یہ ہوگئی کہ 2022 ء کی ایک ویڈیو وائرل کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا گیا کہ کسی مسلمان نے پٹریوں پر گیاس سلینڈر چھوڑ دیا جس کے نتیجہ میں حادثہ پیش آیا ۔ ویڈیو کی حقیقت دراصل کچھ اور تھی کہ ایک شخص خالی سلینڈر کے ساتھ پٹریاں عبور کر رہا تھا اور اچانک ٹرین کے آتے ہی وہ گھبراکر سلینڈر چھوڑ کر بھاگ گیا۔ نفرت کے سوداگروںکا دل اتنے پر نہیں بھرا تو انہوں نے بالاسور میں حادثہ کے مقام کی تصویر وائرل کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا کہ پٹریوں کے قریب ایک مسجد ہے ۔ مقامی حکام نے یہ وضاحت کی کہ جس عمارت کو مسجد کے طور پر پیش کیا گیا وہ دراصل ایک مندر ہے۔ الغرض ملک میں کوئی واقعہ پیش آئے مسلمانوں سے جوڑتے ہوئے ہندوؤں میں یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ تمہیں مسلمانوں سے خطرہ لاحق ہے۔ جھوٹی خبروں اور جھوٹی مہم کے لئے بی جے پی اور سنگھ پریوار کا سوشیل میڈیا نیٹ ورک کافی متحرک دیکھا گیا ہے۔ سوشیل میڈیا اور گودی میڈیا بھلے ہی اپنی مہم جاری رکھیں لیکن ملک کے عوام باشعور ہوچکے ہیں اور وہ دوبارہ دھوکہ نہیں کھائیں گے۔ منور رانا نے کیا خوب کہا ہے ؎
سیاست نفرتوں کا زخم بھرنے ہی نہیں دیتی
جہاں بھرنے پہ آتا ہے تو مکھی بیٹھ جاتی ہے