سیاسی اختلاف میں احترام ضروری

   

ہندوستان ایک ایسا ملک ہے جس میں بے شمار سیاسی جماعتیں کام کرتی ہیں۔ ہر جماعت عوام کی حقیقی نمائندہ ہونے کا دعوی کرتی ہے ۔ عوام سے رجوع ہوتے ہوئے نت نئے وعدے کرتی ہے ۔ عوام کو سبز باغ دکھائے جاتے ہیں۔ ہتھیلی میں جنت دکھاتے ہوئے ان کے ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ ایسے وعدے کئے جاتے ہیں جن کو پورا کرنا شائد کسی کیلئے بھی ممکن نہ ہو ۔ ساتھ ہی دوسری سیاسی جماعتوں پر تنقیدیں اورا لزامات بھی ہندوستانی سیاست کا حصہ ہیں۔ یہ جمہوریت کی انفرادیت ہے کہ ایک دوسرے کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے تاہم اس میں احترام کو ملحوظ رکھنا بے انتہاء ضروری ہے ۔ کسی کے ساتھ نظریاتی اختلاف ضرور ہوسکتا ہے اور جمہوریت میں اس کا ایک دوسرے کو حق بھی دیا گیا ہے ۔ ایک گھر میں چار لوگ اگر ہیں تو ان چاروں میں بھی نظریاتی اختلافات ہوسکتے ہیں اور یہ ایک فطری عمل ہے ۔ تاہم ان اختلافات کو شخصی عداوت یا دشمنی کی حد تک نہیں لیجانا چاہئے ۔ ہندوستانی سیاست کے معیار میں حالیہ دنوں میں گراوٹ کی انتہاء دیکھی جا رہی ہے ۔ ایک دوسرے پر تنقیدیں کرتے ہوئے ایک دوسرے کے احترام کو خاطر میںلانے کیلئے کوئی تیار نہیں ہے ۔ ہر کوئی خود کو سب سے بہتر کے طور پر دکھانے میں مصروف ہے ۔ دوسروں کے وجود سے ہی انکار کیا جا رہا ہے اور انہیں سیاسی ہی نہیں بلکہ طبعی طور پر بھی ختم کرنے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ گذشتہ دنوں کرناٹک میں بی جے پی کے ریاستی صدر نے سینئر کانگریس لیڈر کو نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ جس طرح سے ٹیپو سلطان کا خاتمہ کردیا گیا اسی طرح کانگریس لیڈر کا خاتمہ کردیا جائیگا ۔ اس طرح کی زبان ہندوستانی سیاست کا حصہ نہیں ہونی چاہئے ۔ اس طرح کی بیان بازیوں سے سیاسی اختلاف در اصل شخصی بغض و عناد میں بدل جاتا ہے اور یہ ہندوستانی سیاست کی روایت کبھی نہیں رہی کہ دوسروں کو نیچا دکھایا جائے ۔ ماضی میں دیکھا گیا ہے کہ حکمران جماعت اور اپوزیشن قائدین میں نظریاتی اور سیاسی اختلافات بہت شدید ہونے کے باوجود ان میں ایک دوسرے کیلئے شخصی احترام ضرور تھا اور ایک دوسرے کی قدر کی جاتی تھی ۔
اب حالات بدل دئے گئے ہیں۔ ایک دوسرے کی بات کو برداشت کرنے کوئی تیار نہیں ہے ۔ اپنے منظر نامہ میں کسی دوسرے کو شامل کرنے کیلئے کوئی تیار نہیں ہے اور نہ ہی کوئی اسے قبول کرنے تیار ہے ۔ ایک دوسرے پر تنقیدیں آج بھی جاری ہیں۔ الزامات اب بھی لگائے جا رہے ہیں۔ ان کے جواب بھی اسی حساب سے دئے جا رہے ہیں لیکن اس سارے عمل میں اخلاق و اقدار کو فراموش کردیا گیا ہے ۔ کسی کے تعلق سے بھی کسی بھی سطح کے ریمارکس کئے جا رہے ہیں۔ ایسا کرنے والوں کو ذرا بھی شرمندگی نہیں ہو رہی ہے ۔ انہیں قانونی مقدمات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ اس کے باوجود وہ اپنے رویہ میں کسی طرح کی تبدیلی لانے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ وہ صرف اپنی زبان چلاتے ہوئے خود کو عوام میں پیش کرنے میں مصروف ہیں اور انہیں اس بات کی کوئی پرواہ نہیں رہ گئی ہے کہ عوام میں ان کی روش کا کیا اثر ہو رہا ہے ۔ عوام کے ذہنوں میں ان کی شبیہہ کس حد تک متاثر ہو رہی ہے ۔ آج مختلف جماعتوں میں کئی قائدین ایسے ہیں جو انتہائی ناشائستہ زبان استعمال کر رہے ہیں اور حد تو یہ ہوگئی کہ ان میں اکثر کا تعلق برسر اقتدار جماعتوں سے بھی ہے ۔ زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ میڈیا میں اس معاملے میں دوہرے معیارات اختیار کئے جا رہے ہیں۔ ایک گوشے کو کسی بھی طرح کی بیان بازی پر نشانہ بنایا جاتا ہے تو دوسرے گوشے کی جانب سے استعمال کئے جانے والے ناشائستہ الفاظ کا جواز پیش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ یہ میڈیا کا ڈوغلا پن اور غلامی ہے ۔
ملک کے تمام سیاستدانوں اور تمام سیاسی جماعتوں کو ایک بات پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ ہندوستان اخَلاق و اقدار کا ملک ہے ۔ ہماری روایات کو دنیا بھر میں معتبر سمجھا جاتا ہے ۔ ہم نے کئی مواقع پر دیکھا کہ حکومتوں کے قائدین اپوزیشن قائدین کی اور برسر اقتدار قائدین کی اپوزیشن قائدین کی جانب سے ستائش بھی کی گئی ہے ۔ مختلف نظریات رکھنے کے باوجود ان میں شخصی تعلقات بہت اچھے رہے ہیں ۔ یہی ہندوستانی سیاست اور ہماری جمہوریت کی انفرادیت رہی ہے۔ اس کو برقرار رکھا جانا چاہئے ۔ سیاست ایک اکثر و بیشتر بدلنے والی شئے ہے اور اس میں کسی سے شخصی اختلافات کی کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہئے ۔ نظریاتی اور سیاسی اختلافات کو شخصی اختلافات کی حد تک پہونچانے سے ہرکسی کو گریز کرنا چاہئے ۔