سیدنا عمر فاروقؓ ایک مثالی حکمراں

   

ڈاکٹر قمر حسین انصاری
خلیفہ دوم سیدنا عمر فاروقؓ کی پیدائش ۵۸۳؁ عیسوی میں ہجرت نبوی ﷺ سے ۴۰ سال قبل ہوئی ۔ آپ نویں پُشت میں جاکر حضورؐ سے ملتے ہیں ۔ اُن کے اسلام کا واقعہ ۶ نبوی کا ہے ۔ اُس وقت اُن کی عمر ۲۷ سال تھی اور آپؓ چالیسویں مسلمان بنے ۔ وہ حضرت حمزہؓ کے اسلام لانے کے صرف تین دن بعد مسلمان ہوئے اور نبی کریم ﷺ نے اُن کے اسلام لانے کی دُعا کی تھی ۔
امام ترمذیؒ نے ابن عمرؓ سے روایت کی ہے اُسی طرح طبرانی نے حضرت ابن مسعودؓ اور حضرت انسؓ سے روایت کی جبکہ نبیؐ نے فرمایا : ’’اے اﷲ ! عمر بن خطاب اور ابوجہل بن ہشام میں جو شخص تیرے نزدیک زیادہ محبوب ہو اُس کے ذریعہ اسلام کو قوت پہنچا ‘‘ ۔ اﷲ نے یہ دُعا قبول فرمائی اور حضرت عمرؓ مسلمان ہوگئے ۔ اﷲ کے نزدیک دنوں میں زیادہ محبوب حضرت عمرؓ تھے ۔ (سنن ترمذی) دارارقم میں موجود تمام صحابہ کرام خوشی کے مارے پُکار اُٹھے ’’اﷲ اکبر‘‘ جب آپؓنے حضور اکرم ﷺ کے روبرو کلمہ پڑھا اور آپؓمشرف اسلام ہوکر اسلام کی شان و شوکت ، عزت اور غلبہ کا سبب بنے ۔
امام غزالیؒ نے حضرت عمرؓ کے مسلمان ہونے سے پہلے حالات کا تفصیلی جائزہ ’’فقہ السیرقاص‘‘ میں کیا ہے ۔ حضرت عمرؓ کا بیان ہے کہ جب قریش نے مجھے اور حمزہؓ کو ساتھ دیکھا تو اُن کے دلوں پر ایسی چوٹ لگی جو اب تک نہ لگی تھی اُسی دن رسول اﷲؐ نے میرا لقب ’’فاروق‘‘ رکھ دیا ۔ یعنی حق کا ساتھ دینے والا ! ( ابن جوزی )
حضور ؐ نے فرمایا : ’’اﷲ نے عمرؓ کی زبان پر حق جاری فرمادیا ‘‘ (سنن ابی داؤد) آپؓایسے جانثار صحابی رسولؐ بنے کہ کسی بھی گستاخِ رسولؐ کے خلاف آپ کی تلوار میان سے نکل جاتی ۔ اس تیز دھار تلوار کی زیارت کا موقعہ مجھے اور میری اہلیہ کو استنبول ( ترکی ) کی تاپ کپی اسلامی میوزیم میں دوبار ملا ۔ الحمدﷲ اُسے دیکھ کر ابھی بھی خوف طاری ہوجاتا ہے !
بخاری شریف میں حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ حضرت عمرؓ نے فرمایا : ’’پروردگار نے مجھ سے تین باتوں میں موافقت کی میں نے رسول اﷲ ﷺ سے عرض کیا تھا یا رسول اﷲ ! کیا ہم مقامِ ابراھیم کو مصلیٰ نہ بنالیں ؟ تو یہ آیت نازل ہوئی ۔ ’’ وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْـرَاهِيْمَ مُصَلًّى ‘ ‘( سورۃ البقرہ ) رسول اﷲ نے یوں ہی نہیں فرمایا : ’’اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا وہ عمر ہوتے ‘‘ ( متفق علیہ )
حضرت عمرؓ ایک جلیل القدر صحابی تھے ۔ اپنے مختصر دورِ خلافت میں ایک ایسی عظیم الشان ریاست قائم کی جس کا رقبہ (۲۲۵۱۰۳۰) مربع میل تھا ۔ آپؓ کی خلافت بے شمار فتوحات کے علاوہ عدل و انصاف ، راتوں کو گشت کرتے ہوئے رعایا پروری اور انتظامِ حکومت کی غیرمعمولی خوبیوں کی وجہ سے ایک مثالی خلافت بن گئی ۔ آپؓ نے حکم جاری کیا کہ بچہ پیدا ہوتے ہی اُس کا وظیفہ مقرر کردیا جائے ۔ اس عظیم کارنامے سے آپؓ کے دورِ خلافت میں جدید اصلاح میں ایک ایسی رفاہی مملکت قائم ہوئی جو رعایا کی بنیادی ضروریات کی کفیل بن گئی ۔ ہجری سنہ کا رواج آپؓ نے ہی قائم کیا ۔ آپؓ کی زندگی بیحد سادہ تھی ۔ آپؓنے نہ کوئی مکان بنایا اور نہ مال و دولت جمع کی جو آج کل کے حکمرانوں کا شیوہ ہے ۔ آپؓکی احتسابی کا رعایا کو حق تھا جو اپنی مثال آپ ہے ۔ آپؓ کا بہت ہی سادہ لباس ہوا کرتا تھا اور کہا کرتے تھے کہ ہماری عزت اسلام سے ہے نہ کہ کپڑوں سے ! دنیا نے ۲۲ لاکھ مربع میل پر پھیلے ہوئے حکومت کے ایسے حکمران کو دیکھا جس کے کپڑوں پر ۱۷ پیوند لگے تھے ! آپؓ حق و صداقت کے علمبردار تھے ۔ فرمایا رسول اﷲ ﷺ نے ’’میرے بعد حق عمر کے ساتھ ہوگا ‘‘ (مسند بزار ) اور جو سوکھی روٹی کھاتا تھا ۔ آپؓ صاحبِ الہام بھی تھے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا : ’’تم سے پہلی اُمتوں میں کچھ لوگ صاحب الہام ہوا کرتے تھے میری اُمت میں اگر کوئی صاحب الہام ہوتا تو وہ عمر ہوتے‘‘۔ (صحیح بخاری )
آپؓفاتح بیت المقدس تھے ۔ مشیتِ خداوندی کی کرشمہ سازی دیکھئے کہ اسلامی سال کی ابتداء ہی آپؓکی شہادت سے ہوئی جو کم بخت ابو لؤ لؤ فیروز نامی ایک ایرانی مجوسی غلام کے ہاتھوں زہر آلود خنجر کے وار سے ہوئی ۔ پھر مرقدِ رسول اﷲ ﷺ کے پہلو میں تاحیات استراحت کے لئے دو گز جگہ بھی عطاء ہوئی ۔ اﷲ اﷲیہ شان کہ تاقیامت جو مسلمان روضۂ اقدس کی حاضری میں ہوگا وہ سیدنا ابوبکر صدیقؓ اور سیدنا عمر فاروقؓ پر سلام بھیجے بغیر آگے نہ بڑھ سکے گا ۔ کیا یہ ایک اعزازِ خداوندی نہیں ! ۔ اﷲ ہمیں حضرت عمرؓ جیسا ایمان اور حکمران عطاء فرمائے ۔ ( آمین )