سینئر وکیل دشانت دیو نے کہاکہ عدالتی نظام اندھا ہے

,

   

انہوں نے کہاکہ ”جب پولیس مکانات دوکانیں اور کاروباروں پر بلڈزور چلارہی ہے تو کیاوہ اندھے ہیں؟عدالت خاموش بیٹھی ہوئی ہے۔ بڑے احترام کے ساتھ میرا مطلب صاف ہے کہ عدلیہ کی طرف سے مکمل منافقت ہے“۔


سینئر ایڈوکیٹ دشانت دیو نے ہندوستان کے عدالتی نظام کو اپنی شدید تنقید کا نشانہ بنایا‘ خاص طور پر اعلی عدالتیں اور ہندوستان کی عدالت عظمیٰ کو ”اکثریتی عدالت“ قراردیتے ہوے انہوں نے یہ الزام لگایاہے۔

لائیولاء کو دئے گئے ایک انٹرویو میں مذکورہ سینئر ایڈوکیٹ نے جب اعلی عدالتوں او رسپریم کورٹ کو ”نابینا“ کہہ کر مخاطب کیا تو ان کے الفاظ میں کوئی لچک نہیں تھی۔


عدلیہ بلڈزور کلچر کے خلاف نبرد آزما ہے
جاری بلڈزور کلچر پر بات کرتے ہوئے جس کا اکثر استعمال بی جے پی کی زیرقیادت حکومتوں میں ہورہا ہے اور اس کا زیادہ تر استعمال مسلمانوں سے منسوب عمارتوں کے لئے ہوتا ہے‘ جس کو غیرمجاز قبضوں پر تعمیر کردہ بتاکر منہدم کردیاجارہا ہے‘پر انہوں نے پوچھا کہ عدلیہ خاموش کیوں ہے۔

انہوں نے کہاکہ ”جب پولیس مکانات دوکانیں اور کاروباروں پر بلڈزور چلارہی ہے تو کیاوہ اندھے ہیں؟عدالت خاموش بیٹھی ہوئی ہے۔ بڑے احترام کے ساتھ میرا مطلب صاف ہے کہ عدلیہ کی طرف سے مکمل منافقت ہے۔

عدالت کو زوردینا ہوگا“۔انہوں نے کہاکہ ”آپ (عدلیہ)کو یہ یقینی بنانا ہوگاکہ قانون کی حکمرانی بلاتفریق مذہب‘ حیثیت سے بالاتر‘ ذات پات کے‘ بلالحاظ مذہب‘ حیثیت کے بغیر‘ذات پات کے‘ کسی بھی چیزسے قطعی نظراگر عدلیہ ایسا نہیں کرپارہی ہے تو آپ روزبروزایکزیکٹیو کے حوالے کررہے ہیں اور اس کے شعبے میں ایکزیکٹیو کا حوصلہ بڑھتا جارہا ہے۔

اس نے قانون کو ہاتھ میں لے لیا ہے اور اس کا نتیجہ شہریوں کو بھگتنا پڑرہا ہے“۔

انہوں نے عدالتوں کی منافقت کی طرف اشارہ کیاجو بلڈزور کلچر کو روکنے سے قاصر ہے جوکہ بہت سے دائیں بازو سے منسلک سیاسی جماعتوں او رتنظیموں کے لئے ”انصاف کی شکل“ہے۔


برطانوی راج کے دوران عدالتی نظام مضبوط ہوا
انہوں نے پوچھا کہ نوآبادیاتی برطانوی راج کے دوران ہندوستانی عدلیہ کو یاد کرتے ہوئے دیو نے کہاکہ اس وقت کاعدالتی نظام آج کے نظام سے زیادہ مضبوط تھا۔اس وقت بھی عدلیہ اس قدر کمزور نہیں تھی جتنا آج ہے۔

میں یہ کہنے کی جسارت کررہاہوں کہ آج جج شہری حقوق اور آزادیوں پر حملے جیسی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف مقابلہ کرنے کو تک تیار نہیں ہیں۔ جج خاموش ہیں۔ کیا عدلیہ ہندوستان کی جمہوریت کو متحرک رکھنے کو یقینی بنانے کی ذمہ دار نہیں ہے؟“۔

انہو ں نے پاکستان سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے متعلق بات کی جس کو ڈکٹیٹر مشرف عالم کی مانگ کے آگے گھٹنے ٹیکنے سے انکار کے بعد ہٹادیاگیاتھا۔

کینیا میں سپریم کورٹ نے حکم دیاتھا کہ سابق کے ایک الیکشن میں دھاندلی پائی جانے کے بعد سارے الیکشن دوبارہ منعقد کرنے کوکہاگیاتھا۔

اسی طرح انگلینڈ میں جب سابق وزیر بور س جانسن نے ایوان نہیں بلایا تو سپریم کورٹ نے مداخلت کی اور ایوان بلانے کی ہدایت دی تھی۔دیو نے ہندوستان کی سکیولرزم پر بھی بات کی ہے۔