سی اے اے ‘ انتخابی ہتھیار

   

انتخابات کے موسم میں کئی طرح کے ہتھکنڈے اختیار کرنے میں بی جے پی مہارت رکھتی ہے ۔ معمولی سی بات کا بھی سیاسی فائدہ اٹھانے کیلئے کوئی کسر باقی نہیں رکھی جاتی ۔ ویسے تو تقریبا تمام سیاسی جماعتوں کی جانب سے اس طرح کی کوششیں کی جاتی ہیں لیکن اگر بی جے پی ایسی کوشش کرے تو وہ پوری مہارت سے کرتی ہے اور اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ اس کی مناسب تشہیر بھی ہو اور عوام پر اس کے اثرات دکھائی دیں۔ کئی اقدامات بیک وقت کئے جاتے ہیں اور اس کیلئے بی جے پی کے پاس مشنری بھی دستیاب ہے ۔ اب جبکہ آئندہ لوک سبھا انتخابات کا اعلامیہ کسی بھی وقت جاری ہوسکتا ہے اور تمام جماعتوں کی تیاریوںمیں تیزی آگئی ہے تو بی جے پی اس معاملے میں سب سے آگے ہے ۔ مرکزی حکومت نے چار سال قبل متنازعہ قانون شہریت ترمیمی قانون ( سی اے اے ) کو منظوری دی تھی تاہم اس وقت سے اب تک اس قانون پر عمل نہیں کیا گیا تھا ۔ اس کا اعلامیہ جاری نہیں کیا گیا تھا ۔ اب جبکہ لوک سبھا انتخابات کا وقت قریب آ پہونچا ہے اور کسی بھی وقت اعلامیہ جاری ہوسکتا ہے مرکزی حکومت نے سی اے اے پر عمل کا آغاز کردیا ہے ۔ بی جے پی در اصل اس قانون کے ذریعہ بھی سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے ۔ بی جے پی کی جانب سے تمام کام صرف اور صرف سیاسی فائدہ اور ووٹ کیلئے کئے جاتے ہیں۔ چاہے وہ رام مندر کی تعمیر ہی کیوں نہ ہو ۔ رام مندر کی بھی تعمیر مکمل نہیںہوئی لیکن انتخابات کو دیکھتے ہوئے اس کا افتتاح کردیا گیا ۔ اب چار سال سے التواء میں رکھنے کے بعد اچانک ہی سی اے اے پر عمل آوری کا اعلان کردیا گیا ۔ یہ واضح نہیں کیا گیا کہ چار سال سے اس کو التواء میں کیوںر کھا گیا تھا ۔ چار سال سے اس پر عمل کرنے میں کیا رکاوٹ تھی ۔ کسی نے بھی اس طرح کے سوال نہیں کئے ہیں جبکہ بی جے پی کو یہ جواب دینے کی ضرورت ہے کہ اس نے صرف انتخابات سے عین قبل ہی اس پر عمل کرنے کا فیصلہ کیوں کیا ہے ؟ ۔ اس کا ایک ہی جواب ہے کہ بی جے پی اس مسئلہ پر بھی سیاسی فائدہ حاصل کرنے اور عوام کے ووٹ حاصل کرنے کا ہی منصوبہ رکھتی ہے ۔
ایک تیر سے کئی نشانہ لگانے میں بھی بی جے پی مہارت رکھتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ سی اے اے کے ذریعہ مسلمانوں پر خوف طاری کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ اس قانون کے ذریعہ یہ تو حقیقت ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ نا انصافی کی گئی ہے ۔ ان کے ساتھ امتیازی سلوک اختیار کیا جا رہا ہے کیونکہ پڑوسی ممالک سے ہندوستان آنے والے ہندووں کو تو یہاں کی شہریت دی جاسکتی ہے لیکن وہاں کے مسلمان کو ہندوستان کی شہرت نہیں دی جاسکتی ۔ یہ پہلا موقع ہے جب شہریت کیلئے مذہب کو اساس بنایا گیا ہے ۔ اب تک کبھی بھی مذہب کی بنیاد پر شہریت کا فیصلہ نہیں کیا گیا تھا ۔ لیکن بی جے پی نے اس روایت کو بھی تبدیل کردیا اور محض مذہب کی بنیاد پر پڑوسی ممالک کے شہریوںکو ہندوستانی شہریت دینے کا فیصلہ کرتے ہوئے ہندوستانی مسلمانوںپر ایک طرح سے نفسیاتی دباؤ بنانے کی کوشش کی ہے ۔ حالانکہ اس قانون سے ہندوستانی مسلمانوںپر راست کوئی اثر نہیں ہوسکتا لیکن اس کے بعد این آر سی کی تیاری کے اندیشوںکو بھی مسترد نہیں کیا جاسکتا ۔ بی جے پی سی اے اے کے مسئلہ پر غیر ضروری تفرقہ پیدا کرتے ہوئے سیاسی فائدہ حاصل کرنا چاہتی ہے اور یہ اس کی منفی سیاست کا ثبوت ہے ۔ گذشتہ دس برس تک اقتدار میں رہنے کے بعد بھی بی جے پی کو اگر منفی سیاست کرتے ہوئے انتخابی کامیابی حاصل کرنی پڑ رہی ہے تو یہ اس کی کارکردگی کے ناقص ہونے کا ثبوت ہے ۔ یہ مودی حکومت کی ناکامی کا ثبوت بھی کہا جاسکتا ہے ۔
حکومت چلانا اور عوام کی فلاح و بہبود اور بہتری کیلئے اقدامات کرنا ہر حکومت کا فرض ہے ۔ اسی وجہ سے عوام حکومتوں کا انتخاب عمل میں لاتے ہیں۔ حکومتیں بھی عوام کی توقعات کو پورا کرنے کی جدوجہد کرتی ہیں لیکن بی جے پی اور مودی حکومت کا ایک ہی مقصد و منشا ہے کہ کسی طرح سے عوام کی تائید اور ان کے ووٹ حاصل کئے جائیں۔ سنجیدگی سے عوامی مسائل کی یکسوئی کے اقدامات کرنے کی بجائے عوام کو صرف سبز باغ دکھائے جائیں اور اپنے اقتدار اور حکمرانی کو مستحکم اور مضبوط کیا جائے ۔ عوام کو اس بات کو پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ حساس نوعیت کے مسائل پر بھی سیاست کرنے والوں کو سبق سکھایا جانا چاہئے ۔