سی اے اے اور این آرسی کے خلاف احتجاج میں دکنی جملوں کا استعمال

,

   

حیدرآباد۔کسی بھی احتجاجی تہذیب کا حصہ اس کی نشانیاں ہوتے ہیں‘ بند الفاظوں میں آنکھیں کھولنے والے نعرے مرکز توجہہ رہتے ہیں۔ وہیں کچھ ”فلاں واپس جاؤ“ یا پھر قابل اعتراض ریمارکس‘ تو تھوڑے تخلیقی الفاظ کا بھی استعمال کرتے ہیں‘ مثال کے طور پر پچھلے ہفتہ عثمانیہ یونیورسٹی میں ہوئے احتجاج کے دوران‘ وہاں پر ایک پوسٹر پر لکھاتھا‘ ائیکیا کے پاس مودی سے اچھا کابینٹ ہے“۔

تقریبا چار سال قبل حیدرآباد میں منتھن کے پروگرام کے دوران سابق وزیر فینانس پی چدمبرم نے دعوی کیاتھا کہ سیاسی مباحثہ میں کوئی طنز ومزاح نہیں ہے۔ دہلی حکومت کے ہٹ دھرمی کو محسوس کرتے ہوئے سارے ملک میں احتجاج کیاجارہا ہے۔

مگراین آرسی اور سی اے اے کے خلاف حیدرآباد کے مختلف مقامات پر ہورہے احتجاجی مظاہروں میں نعروں پر مشتمل پلے کارڈس میں پھرحیدرآبادی فقرے‘ دکنی الفاظ کااستعمال کرتے ہوئے احتجاج کو وسعت دینے کاکام کیاگیاہے۔

عثمانیہ یونیورسٹی کے احتجاجی جلسہ عام میں حیدرآبادی فلم ’دی انگریز“ میں اسماعیل بھائی کا کردار ادا کرنے والے شخص نے کہاتھا ”پچیس سال سے چارمینار پہ بیٹھوں“ او راحتجاجیوں نے اس کے ساتھ یہ جملہ بھی جوڑ دیاکہ ”مودی ہم سے دستاویزات مانگ رہا ہے“۔

پلے کارڈ پر جو نعرہ لکھا تھا وہ کچھ اس طرح تھا کہ”پچیس سال سے چارمینار پر بیٹھوں اور مودی میرے سے دستاویزات مانگ رہا“۔ عثمانیہ یونیورسٹی میں پچھلے ہفتہ ہوئے احتجاج میں جو پلے کارڈس مقامی فقروں کے ساتھ تھے‘ اس میں کچھ خاص الفاظ جیسے”چچا‘ ماملہ گرم ہورا‘ سمجھ رہے؟سمجھ رہے نا؟ کا استعمال کیاگیاتھا۔

حیدرآباد کے باہر مظاہرین این آرسی کی مذمت میں اپنے اسلامی تہذیبی نقطہ نظر کو پیش کررہے ہیں۔ حیدرآباد ہو یا پھر دہلی اس مشکل کے دور میں بھی سیاسی بیان بازیاں کسی طنز مزاح سے کم نہیں ہیں

وائیرل ہونے والوں ویڈیوز میں پہلا حیدرآباد ویڈیو جس میں ایک خاتون خالص دکنی زبان میں وزیر داخلہ امیت شاہ کی تذلیل کررہی ہیں