سی بی آئی ‘ کیا مودی خوفزدہ ہیں ؟

   

مت کرو بات اتنی سختی سے
دل کے شیشے میں بال آتا ہے
سی بی آئی ‘ کیا مودی خوفزدہ ہیں ؟
سنٹرل بیورو آف انوسٹیگیشن ( سی بی آئی ) ملک کا ایک ایسا باوقار ادارہ رہا ہے جس کی تحقیقات سے بڑے بڑے لوگ خوفزدہ رہا کرتے تھے ۔ سی بی آئی کے کام کرنے کا انداز یکسر مختلف ہوا کرتا تھا اور اس کے آگے مرکزی اور ریاستی حکومتیں بے بس رہا کرتی تھیں اور یہ ایجنسی آزادانہ طورپر کام انجام دینے میں شہرت رکھتی تھی ۔ حالانکہ یہ وزارت داخلہ کے تحت کام کرتی ہے لیکن اس کے کام کاج میں اگر سرکاری مداخلت نہ ہو تو خود حکومتیں بھی اس سے خائف رہا کرتی تھیں۔ تاہم اب گذشتہ کچھ عرصہ سے جو حالات پیدا کردئے گئے ہیں ایسا لگتا ہے کہ حکومت نہیں چاہتی کہ سی بی آئی آزادانہ طور پر کام کرے اور اس رخ سے تحقیقات کی جائیں جس طرح سے تحقیقات کی امید ظاہر کی جا رہی تھی ۔ کچھ معاملات میں ایسا لگتا ہے کہ حکومت یا پھر کانگریس کے الزام کے مطابق خود وزیر اعظم نریندرمودی سی بی آئی کی تحقیقات سے خائف ہیں۔ یہ کہا جا رہا ہے کہ سی بی آئی نے رافیل معاملت میں تحقیقات کا کام شروع کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور اس سلسلہ میں کچھ پہل بھی ہوئی تھی لیکن ان تحقیقات سے حکومت اور مودی خوفزدہ ہیں اسی لئے سی بی آئی کو ہی نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ اس کے ڈائرکٹر کو اچانک ہی غیر مروجہ طریقہ سے عہدہ سے راتوں رات ہٹا دیا گیا ۔ سپریم کورٹ نے ڈائرکٹر کو بحال کیا تو پھر باضابطہ کمیٹی کی جانب سے فیصلہ کرتے ہوئے انہیں ہٹادیا گیا جبکہ ان کی سبکدوشی کیلئے صرف 21 دن کا وقت باقی تھا ۔ اس طرح چنددن بھی حکومت نے انہیں اس عہدہ پر برداشت کرنا گوارہ نہیں کیا حالانکہ اسی حکومت نے انہیں اس عہدہ پر متعین کیا تھا ۔ جس طرح سے حکومت نے ڈائرکٹر کے عہدہ سے آلوک ورما کو ہٹایا ہے اور جس طرح کی جلد بازی دکھائی گئی ہے اس سے یہ شکوک تقویت پاتے ہیں کہ حکومت کسی مخصوص معاملہ میں تحقیقات سے بچنا چاہتی ہے اور وہ تحقیقاتی عمل سے خوفزدہ ہے ۔ کانگریس پارٹی اور اس کے صدر راہول گاندھی مسلسل یہ الزام عائد کر رہے ہیں کہ رافیل معاملت میں بے قاعدگیاں ہوئی ہیں اور سی بی آئی اس میں تحقیقات کرنا چاہتی تھی جس سے وزیر اعظم خوفزدہ ہیں۔
گذشتہ کچھ عرصہ کے دوران اندرونی طو رپر اس تحقیقاتی ایجنسی میں جو حالات پیدا ہوئے ہیں ان کی وجہ سے ایجنسی کا وقار متاثر ہوا ہے ۔ اس کا امیج داو پر لگ گیا ہے اور یہ شبہات تقویت پاتے جا رہے ہیں کہ ایجنسی کے کام کاج میں سرکاری مداخلت بڑھ گئی ہے اور جہاں سرکاری مداخلت کو قبول نہیں کیا جا رہا ہے وہاں حکومت اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے عہدیداروں کے تبادلے کر رہی ہے یا پھر انہیں عہدوں سے ہٹایا جا رہا ہے ۔ اپوزیشن جماعتوں کا الزام ہے کہ سی بی آئی میں حکومت اس کی مرضی سے کام کرنے والے اور اس کے اشاروں پر ناچنے والے عہدیداروں کو متعین کر رہی ہے اور ایسے عہدیداروں کو برداشت کرنے حکومت تیار نہیں ہے جو سرکاری مداخلت کو قبول کئے بغیر اپنے عہدہ کے تقاضوں کے مطابق اپنی ذمہ داریوں کی تکمیل کرنا چاہتے ہیں۔ ایسے الزامات بھی ایجنسی کے وقار کیلئے اچھی علامت نہیں ہیں۔ ترنمول کانگریس کی سربراہ ممتابنرجی نے یہ الزام بھی عائد کیا ہے کہ حکومت نے سی بی آئی کو اپنی ہدایت پر چلنے والی ایجنسی بنا کر رکھ دیا ہے اور حکومت کی مداخلت کی وجہ سے ایجنسی کا کام کاج بری طرح متاثر ہوا ہے ۔ جس طرح سے گذشتہ دنوں ایجنسی نے اپنے ہی عہدیدار کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا اس کے بعد اچانک ہی ڈائرکٹر کو راتوں رات عہدہ سے ہٹایا جانا یہ ظاہر کرتا ہے کہ سارے معاملہ میں کچھ نہ کچھ گڑبڑ ہے ۔
ماضی میں بھی یہ الزامات عائد کئے جاتے رہے ہیں کہ مرکزی حکومتوں نے سی بی آئی کو اپنے مفادات کی تکمیل کیلئے اور اپنے سیاسی مخالفین کو ہراساں کرنے کیلئے استعمال کیا ہے ۔ کئی موقعوں سی بی آئی کی کارروائیاں ایسے موقعوں پر ہوئی ہیں جب کسی ریاست میں یا ملک میں انتخابات قریب ہوا کرتے ہیں۔ ان کارروائیوں میں حکومتوںنے اپنے مخالفین کو نشانہ بنایا ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت سی بی آئی کے معاملات میں مداخلت کا سلسلہ ترک کرے ۔ اس تعلق سے جو شکوک پیدا ہو رہے ہیں انہیں دور کیا جائے اور ملک کے اس اہم اور باوقار ایجنسی کے امیج اور وقار کو مزید متاثر ہونے سے بچانے اقدامات کئے جائیں۔