شاہین باغ کے نام پر پولرائزیشن کی سیاست ناکام ہوئی

,

   

سی اے اے‘ این آرسی‘ این پی آر سے ناراض مسلم رائے دہندگان نے پورے جوش وجذبے سے کیارائے دہی کا استعمال‘انتظامیہ پر سست رفتاری کا الزام‘ مسلم خواتین نے زیادہ دیکھا دم‘ غیرمسلم علاقوں میں ترقیاتی امور پر ہی ڈالے گئے ووٹ‘ کم ووٹ فیصد سے بی جے پی کو نقصان یقینی

نئی دہلی۔ شہریت ترمیمی قانون 2019(سی اے اے) قومی رجسٹرر برائے آبادی(این پی آر) اور این آرسی کے خلاف شاہین باغ میں گذشتہ دو مہینے سے جاری احتجاجی دھرنے کو عین اسمبلی انتخابات کے وقت جس طرح سے نشانہ بنایاگیااور بی جے پی کی طرف سے پولرائزیشن کی سیاست شروع کی گئی

اس میں وہ پوری طرح سے ناکام ثابت ہوئی۔ رائے دہی کے آخر تک جس سے بھی بات کی گئی اس نے ترقیاتی امور کے سوال پر ہی ووٹ دینے کی بات کہی۔ لوگوں نے بجلی‘ پانی‘ اسپتال‘نقل وحمل‘ اسکول کے سوا ل پر ہی رائے دہی کی۔

پولرائزیشن کی ناکامی کا اندازہ اس با ت سے بھی لگایاجاسکتا ہے کہ 2015میں جو پولنگ فیصد تھا اس میں کافی کمی درج کی گئی ہے۔

سال2015میں 67فیصد سے بھی زیادہ پولنگ ہوئی تھی جبکہ اس مرتبہ اس تناسب تک بھی ووٹوں کا فیصد نہیں پہنچ سکا۔ حالانکہ مسلم علاقوں میں صبح سے ہی قطار نظر آنے لگی تھی۔

اس کے ساتھ ہی اس مرتبہ خواتین کھل کر میدا ن میں ائیں اور ان میں بزرگ خواتین بھی شامل تھیں۔انقلاب بیورو نے اپنے نمائندگان سے بھی رابطہ کیا۔

سید فضیل احمد نے شاستری پارک‘ بلند مسجد‘ خوریچی‘ رانی گارڈن‘ تاج انکلیو‘ منڈوالی‘ فضل پور‘ پرانا سلیم پور وغیرہ کا دورہ کیاجو مسلم اکثریتی علاقے ہیں۔

اس طرح محمد انجم جعفری نے جمنا پار‘ کے مسلم علاقوں کے علاوہ حضرت نظام الدین ویگر مسلم علاقوں کا دورہ کیا جو مسلم اکثریتی علاقے ہیں۔

جبکہ فرزان قریشی نے مٹیا محل‘ بلی ماران‘ چاندنی چوک‘ صدر بازار وغیر ہ کا دورہ کیا۔ ان نمائندگان کا کہنا ہے کہ اس سے پہلے مسلم رائے دہندگان میں رائے دہی کو لے کر اتناجوش نہیں دیکھا گیاتھا۔

مردوں سے میادہ خواتین پر جوش نظر آرہی تھیں۔ ان کا کہنا کہ ہے عام طور پر مسلم علاقوں میں 10یا11بجے سے ہی ووٹ ڈالنے کا سلسلہ شروع ہوتا تھا لیکن اس مرتبہ ایسا نہیں ہوا۔

اس مرتبہ مسلم علاقوں میں صبح سے ہی خواتین قطار میں لگ گئی تھیں اور یہ سلسلہ آخری وقت تک جاری رہا۔

انقلاب کے تینوں نمائندگان کا یہ بھی کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن انتظامیہ کی جان بسے کافی سست رفتاری رہی اور بہت ہی سست پولنگ کرائی گئی۔

علاوہ ازیں مسلم علاقوں میں شاہین باغ تحریک کااثر اس لیے بھی نظرآیاکہ جامع مسجد پرانی دہلی کے علاقے ہوں‘ جمنا پا‘ سلیم پور‘ جعفر آباد کے علاقے ہوں‘ یا پھر نظام الدین ہو یہاں بھی شاہین باغ کی طرز پر مسلسل احتجاجی دھرنے ہورہے ہیں اور اس میں خواتین ہی بڑھ چڑھ کا حصہ لے رہی ہیں۔

ان احتجاجی دھرنوں میں یہ بھی طئے کیاگیاتھا کہ زیادہ سے زیادہ ووٹ کرنا ہے۔ پھر بی جے پی کے خلاف ناراضگی بھی نظر ائی کیونکہ مظاہرین پر جو الزام عائد کیے گئے اور ان کی بات سننے کے بجائے اس پر سیاست کی گئی اس کابھی کافی اثر رہا ہے۔

سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر شاہین باغ کے نام پر پولرائزیشن ہوتا تو پھر پولنگ کا فیصد کم ہونے کی بجائے بڑھتا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ حالانکہ بی جے پی کے لیڈران کو اب بھی لگتا ہے کہ شاہین باغ کے نام پر پولرائزیشن ہوا ہے کیونکہ اب ان کی طرف سے دعوی کیاجارہا ہے کہ ان کی حکومت بننے جارہی ہے۔

دہلی بی جے پی کے صدر منوج تیواری کہہ رہے کہ 45پار ان کی سیٹ ہوں گی جبکہ عام آدمی پارٹی کا کہنا ہے کہ لوگوں نے ترقیاتی امور پر ہی ووٹنگ کی ہے اور ان کی دوبارہ حکومت بن رہی ہے۔

اسی طرح کانگریس بھی مان رہی ہے کہ شاہین باغ کا کہیں کوئی اثر نہیں رہا بلکہ لوگوں نے کام کی بنیاد پرووٹ کیاہے۔ کانگریس بھی کافی پر امید ہے کہ اسکو لگتا ہے کہ اسمبلی بھی اس کی آواز بلند ہوگی۔