شب براء ت ایک دعوت فکر

   

اظہر الطاف عباسی
اللہ تعالی کا ارشاد ہے ’’حم o (حقیقی معنی اللہ اور رسول ﷺ ہی بہتر جانتے ہیں) اس روشن کتاب کی قسم! بے شک ہم نے اسے ایک بابرکت رات میں اتارا ہے بے شک ہم ڈر سنانے والے ہیں اس (رات) میں ہر حکمت والے کام کا (جدا جدا) فیصلہ کردیا جاتا ہے‘‘۔ (سورۃالدخان۔ ۱ تا ۴)
’’براء ت‘‘ کے معنی ہیں نجات، شب براء ت کا معنی ہے گناہوں سے نجات کی رات۔ گناہوں سے نجات توبہ سے ہوتی ہے۔ یہ رات مسلمانوں کے لئے گریہ و زاری کی رات ہے، رب کریم سے تجدید عہد کی رات ہے، شیطانی خواہشات اور نفس کے خلاف جہاد کی رات ہے، یہ رات اللہ تعالی کے حضور اپنے گناہوں سے زیادہ سے زیادہ استغفار اور توبہ کی رات ہے۔ اس رات نیک اعمال کرنے کا عہد اور برائیوں سے دور رہنے کا عہد دل پر موجود گناہوں سے زنگ کو ختم کرنے کا موجب بن سکتا ہے۔
حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم شعبان کی پندرہویں رات کو سجدہ میں یہ دعاء مانگ رہے تھے ’’اللّٰهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِرِضَاكَ مِنْ سَخَطِكَ ، وَبِمُعَافَاتِكَ مِنْ عُقُوبَتِكَ ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْكَ ، لَا أُحْصِي ثَنَاءً عَلَيْكَ ، أَنْتَ كَمَا أَثْنَيْتَ عَلٰی نَفْسِكَ‘‘ ،’’اے اللہ! میں پناہ مانگتا ہوں تیری رضا کے ذریعے سے تیری ناراضی سے اور میں پناہ مانگتا ہوں تیری عافیت کے ذریعہ تیری سزا سےاور میں تیری پناہ مانگتا ہوں تیری ذات کے ذریعے سے، میں تیری تعریف کا شمار نہیں کر سکتا، تو ویسا ہی ہے جیسے تو نے خود اپنی تعریف بیان کی ہے۔
شب براء ت بھٹکے اور سرکش لوگوں کے لئے ایک دستک ہے، جو آخرت کی زندگی کو بھول کر عارضی اور ناپائیدار دنیاوی زندگی کے گورکھ دھندوں میں بری طرح پھنسے ہوئے ہیں۔ یہ رات ان کے لئے اپنے رب کی طرف بلاوا ہے۔ اپنے رب کو منانے کی رات ہے، جب کوئی شخص کماحقہٗ اس رات کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی یاد میں بسر کرتا ہے، تسبیح و تہلیل کرتا ہے، درود و سلام کے نذرانے پیش کرتا ہے، گناہوں سے آلودہ دامن کو ذکر الہی سے صاف کرتا ہے تو یہ رات اس کے لئے بہت سے انعام و اکرام لاتی ہے۔ تقدیریں بدل جاتی ہیں، زندگی کے حالات بدل جاتے ہیں۔ یہ سب کچھ اس ایک عظیم رات کو اس میں کار فرما روح کے مطابق گزارنے کے ہی بدولت ممکن ہے۔
شب براء ت ہمارے احوال کو بدل دیتی ہے۔اگر اس رات اپنے رب کے حضور ندامت اشک کے آنسو بہائے اور نالہ و فریاد کرے، اپنے صغائر اور کبائر گناہوں کے لئے معافی کا خواستگار بنے تو اس وقت بدحالی، خوشحالی میں اور تنگی، آسانی میں بدل جاتی ہے۔ اگر ہماری روز مرہ کی زندگی کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں یہ احساس پیدا ہونا چاہئے اور عبرت حاصل کرنی چاہئے کہ ہم آئے دن اپنے بہت سے اعزاء اور دوست احباب کو ’’ كُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَةُ الْمَوْتِ‘‘ کے ارشاد کے مطابق اپنے سے رخصت کرتے ہیں۔ ان کا رخصت ہونا اصل میں ہمارے لئے دعوت فکر ہے کہ ہم نے اپنے لئے کیا سامان تیار کر رکھا ہے۔ شب براء ت دنیا و آخرت کے سنوارنے کے لئے ایک فکر کا نام ہے۔ یہ اللہ تعالی اور اس کے رسول اکرم ﷺ سے دوری کو ختم کرکے انسان دنیا و آخرت سنوار سکتا ہے۔شب براء ت ہمارے لئے ایک الٹی میٹم ہے کہ اس رات اللہ تعالی کی یاد میں اشکبار ہوں۔ یہ رات اللہ کے فیوضات کا بحر بیکراں ہے، جس میں غوطہ زن ہوکر اپنے من کو سیراب کیا جاسکے۔ ہمارے بزرگ اگر ہمارے نوجوانوں کو اس رات کی حقیقت و ثمرات کے بارے میں باور کرائیں تو وہ اپنی جوانی میں ہی بہت کچھ حاصل کرسکتے ہیں۔
شب براء ت اللہ تعالی کی نا فرمانی اور اسلام کے اصولوں سے عاری لوگوں کے خلاف ایک نقارہ ہے، جس میں باور کروایا جا رہا ہے کہ یہ یاس اور قنوطیت تمہارے کئے ہوئے اعمال کی بناء پر ہے۔ اس رات اپنے اعمال کی اصلاح کی طرف ترغیب دی جا رہی ہے۔ نعمتوں کی قدر دانی اور ان کے جائز استعمال کی طرف متوجہ کیا جا رہا ہے۔ یہ رات نفس کے احتساب کی رات ہے۔ دیگر طاقتوں کی بجائے آقا علیہ الصلوۃ والسلام کی غلامی اختیار کی جائے، جس کے بل بوتے پر دوبارہ کھوئی ہوئی ساکھ کو حال کیا جاسکے۔ ہمیں اس رات کو محض منانے کی بجائے حقیقی طورپر اصل سبق کو ملحوظ رکھنا ہوگا اور اس کے حقیقی ثمرات کو حاصل کرنے کے لئے اس رات کو اس کی روح کے مطابق بسر کرنا چاہئے۔