شراب اسکام ‘ سنجے سنگھ کی ضمانت

   

نہیں اپنا نام و نشاں مٹنے والا
بہت ہورہی ہیں مٹانے کی باتیں
اپوزیشن جماعتوں اور خاص طورپر عام آدمی پارٹی کو نشانہ بنانے کیلئے مرکز کو موقع دینے والے دہلی شراب اسکام میں اب ایسے آثار دکھائی دے رہے ہیں کہ تحقیقاتی ایجنسی کو عدالتوں میں اپنے الزامات ثابت کرنے میںمشکل پیش آسکتی ہے ۔ یہ الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ شراب اسکام کو مرکزی حکومت نے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہوئے اپوزیشن جماعتوں کے قائدین کو لگاتار نشانہ بنایا ہے اور انہیں گرفتار کرکے جیلوںمیں بند کردیا گیا ہے ۔ حالانکہ ابھی اس مقدمہ کی باضابطہ ٹرائیل شروع نہیں ہوئی ہے اس کے باوجود کئی قائدین جیلوں میں بند ہیں۔ کچھ تو ایک سال سے زیادہ عرصہ سے بند ہیں۔ آج اس مقدمہ میں سپریم کورٹ نے عام آدمی پارٹی کے رکن پارلیمنٹ سنجے سنگھ کی ضمانت منظور کردی ہے ۔ شراب اسکام میں یہ پہلی ضمانت ہے جو سنجے سنگھ کو مل گئی ہے ۔ اب دوسرے ملزمین کیلئے بھی ضمانت کی راہ ہموار ہوسکتی ہے ۔ جہاں تک تحقیقاتی ایجنسیوں کی جانب سے مقدمات کے اندراج اور سیاسی قائدین کی گرفتاری کا مسئلہ ہے تو یہ بالکل واضح دکھائی دے رہا ہے کہ تحقیقاتی ایجنسی یا تو دباؤ میں کام کر رہی ہے یا پھر اپوزیشن کو نشانہ بنانے کی اسے ذمہ داری دیدی گئی ہے ۔ الزام یہ عائد کیا جا رہا ہے کہ عام آدمی پارٹی کو دہلی شراب اسکام میں جملہ 100 کروڑ روپئے کی رشوت حاصل ہوئی تھی ۔ اب تک یہ رقم کہیںسے بھی برآمد نہیں ہوئی ہے اور نہ ہی یہ واضح ہوا ہے کہ یہ رقم کس کے ذریعہ کس تک پہونچی ہے ۔ جب تک رقم برآمد نہیںہوتی یا یہ ثبوت نہیں مل جاتا کہ رقم یکے بعد دیگر کئی افراد تک پہونچی ہے اور اس کا موجودہ ٹھکانہ کہاں ہے اس وقت تک عدالتوں میں ملزمین کے خلاف الزامات کو ثابت کرنا شائد مشکل ہوجائے ۔ سنجے سنگھ کی ضمانت منظور کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے بھی یہ واضح کیا ہے کہ اسکام میں جتنی رقم کے خرد برد کا الزام عائد کیا جا رہا ہے وہ رقم ابھی تک برآمد نہیں ہوئی ہے اور نہ ہی یہ ثابت ہوا ہے کہ رقم نے سفر کرتے ہوئے کئی ہاتھوں کو گرم کیا ہے ۔ اس طرح تحقیقاتی ایجنسیوں کے الزامات عدالتوں میں ثابت کرنا شائد بہت مشکل امر ہوجائیگا ۔
عام آدمی پارٹی ابتداء ہی سے یہ کہتی رہی ہے کہ اگر واقعی میں کوئی اسکام ہوا ہے اور رقمی لین دین ہوا ہے جس کا الزام عائد کیا جا رہا ہے تو رقم کا دستیاب ہونا یقینی ہے ۔ تحقیقاتی ایجنسیوں کے مقدمہ کا انحصار صرف گواہان معافی یافتہ پر ہوگیا ہے ۔ ایجنسیاں خودا پنے طور پر کوئی ثبوت پیش کرنے میں یا جٹانے میں ابھی تک تو ناکام ہی رہی ہیں۔ اس مقدمہ میں اب تک دو ملزمین گواہ معافی یافتہ بن گئے ہیں۔ اس تعلق سے بھی الزام ہے کہ ان پر مختلف سیاسی قائدین کے نام اس مقدمہ میں ماخوذ کرنے کیلئے دباؤ ڈالا گیا ہے ۔ ان کو گواہ معافی یافتہ بناتے ہوئے مقدمہ کو مستحکم کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ ان میںایک گواہ معافی یافتہ جو پہلے ملزم تھے ان کے حاشیہ کے افراد میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جنہوں نے الیکٹورل بانڈز کے ذریعہ بی جے پی کو چندہ دیا ہے ۔ ایسے میں اپوزیشن کے یہ الزامات بھی تقویت پاتے ہیں کہ کچھ ملزمین کو دباؤ ڈالتے ہوئے گواہ معافی یافتہ بنایا گیا ہے اور ان پر اس بات کیلئے بھی دباؤ ہے کہ اپوزیشن کی صفوں میں موجود کچھ قائدین کے نام اس مقدمہ میں لئے جائیں۔ ایسے میں یہ شبہات بھی تقویت پانے لگتے ہیںکہ تحقیقاتی ایجنسیوں کو استعمال کرتے ہوئے اپوزیشن کے خلاف انتقامی جذبہ سے کام کیا جا رہا ہے ۔ ہر سیاسی مخالفت کو ختم کرنے کیلئے ان ایجنسیوں کی خدمات حاصل کی جا رہی ہیں ۔ ہر مخالف آواز کو دبانے اور کچلنے کیلئے مقدمات کاسہارا لیا جا رہا ہے اور مخالف قائدین کو جیلوں میں بند کرنے کی روایت شروع ہوگئی ہے ۔
اب جبکہ سنجے سنگھ کو اس معاملے میںسپریم کورٹ سے ضمانت حاصل ہوگئی ہے تو عدالت نے جو سوال کئے ہیں وہ بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ تحقیقاتی ایجنسی اس سوال کا عدالت میں کوئی جواب نہیں دے پائی ہے ۔ یہی بات عام آدمی پارٹی بھی کہتی رہی ہے کہ اسکام کی رقم کو برآمد کیا جائے ۔ ایجنسیاں یہ رقم برآمد کرنے میں ناکام ہیں جس سے یہ الزامات ہی بے بنیاد ہونے کے شبہات پیدا ہونے لگتے ہیں۔ عدالتوں پر یقین اور انصاف ملنے کی امیدیں سپریم کورٹ کے فیصلے سے مزید مستحکم ہوتی ہیں اور تحقیقاتی ایجنسیوں پر جو شبہات پیدا ہو رہے ہیں اور جو الزامات عائد کئے جا رہے ہیں ان کو تقویت ضرور ملتی ہے ۔