شرم تم کو مگر نہیں آتی

   

لکھنو بیانرز پر عدالتی حکم کے بعد حکومت کی ہٹ دھرمی
گاندھی جی کے ارادوں کیساتھ سفر پر اسٹوڈنٹس کو ملی قید

رویش کمار
دنیا بھر کیلئے خام تیل کی قیمتوں میں زائد از 30 فیصدی گراوٹ معیشت کی سست روی کا سبب بن رہی ہے۔ ہندوستان میں مدھیہ پردیش کی کمل ناتھ حکومت کے تعلق سے بحران و بے چینی کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ معلوم نہیں کہ کمل ناتھ حکومت کے وزراء اور ایم ایل ایز کتنے دن سے غائب ہورہے تھے۔ بہرحال سیاسی داؤ پیچ جاری ہیں اور ہر چال آزمائی جارہی ہے۔ یس بینک کے رانا کپور کے خلاف دھاوے ہورہے ہیں۔ کوئی شخص 4,300 کروڑ روپئے کی مَنی لانڈرنگ کرجاتا ہے، لوگ خود اپنی رقم کے ساتھ جال میں پھنس رہے ہیں، پھر اسے سرکاری کارروائی کہا جاتا ہے، جبکہ خود حکومت کا کہنا ہے کہ یس بینک 2017ء سے ریزرو بینک آف انڈیا اور منسٹری آف فینانس کی نگرانی میں چل رہا تھا۔
ان تمام سرگرمیوں کے درمیان الہ آباد ہائیکورٹ میں دو ججوں کا فیصلہ کچھ کم اہمیت کا حامل نہیں ہے۔ اس طرح کے فیصلے سے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ تو پختگی باقی ہے جبکہ حکومت اپنے ایسے فیصلوں پر بھی اب شرمندہ نہیں ہورہی جو دستوری اقدار اور وقار کے مغائر پائے جاتے ہیں۔ پہلے معاملہ جان لیجئے۔ 50 افراد کی تصاویر اُن کی شخصی معلومات کے ساتھ لکھنو کی سڑکوں پر بیانروں پر لگائی گئیں۔ یہ تحریر کیا گیا کہ ان تمام سے عوامی املاک کو پیش آئے نقصانات کی پابجائی کی جانی ہے، جو قانون شہریت کے خلاف مظاہروں کے سبب ہوئے ہیں۔ ان میں سابق آئی پی ایس آفیسر ایس آر داراپوری، جہدکار صدف جعفر، دیپک کبیر بھی نامزد ہیں۔ 80 سالہ شعیب بھی وکیل برادری کا نمائندہ چہرہ ہیں۔ اس بیانر پر اُن کی تصاویر، نام، گھر کا پتہ، والد کا نام تحریر ہے۔ یہ لکھا گیا ہے کہ ان تمام 50 افراد نے ڈسمبر 2019ء میں احتجاجوں کے دوران عوامی املاک کو نقصان پہنچایا جس کا ہرجانہ اُن ہی سے وصول کیا جائے گا۔ 76 سالہ داراپوری کبھی لکھنو کے ڈی آئی جی تھے۔ ان پر 65 لاکھ روپئے کا ہرجانہ عائد کیا گیا ہے۔

دیپک کبیر ، سنسکرتی کرمی ہیں۔ حال میں اُن کے ’’کبیر فسٹیول‘‘ کا افتتاح کمشنر لکھنو نے کیا تھا۔ اس موقع پر آئی اے ایس اور آئی پی ایس افسران شریک ہوئے۔ ریاستی نظم و نسق انھیں اسمارٹ سٹی میٹنگ میں تک اُن کی رائے جاننے مدعو کیا کرتا رہا ہے۔ اب وہی دیپک کبیر کی تصویر چوراہوں پر لگی ہے۔ شعیب، داراپوری، دیپک اور صدف جیسے 50 افراد کی تصاویر چوراہوں پر لگانے کا سبب حکومت کے ساتھ عدم اتفاق ہے یا پھر یوں کہے کہ مظاہرے میں حصہ لینا ہے۔ ان تمام نے کہا ہے کہ اس سے ان کی جان اور ان کے حق آزادی کو خطرہ پیدا ہوا ہے۔ یہ ہجومی تشدد کیلئے ایک لحاظ سے بھڑکانے والا عمل ہے کہ دیکھو، یہ چہرے ہیں، یہ اُن کے پتے ہیں، وغیرہ۔ ان تمام نے سخت اعتراض کیا کہ اس معلومات کی مدد سے مشتعل کراؤڈ اُن کے گھروں پر ہلہ کرسکتا ہے۔
چنانچہ اس معاملہ کی سنگینی کے پیش نظر اتوار کو چھٹی کے باوجود سماعت کی گئی۔ چیف جسٹس گوئند ماتھر اور جسٹس رمیش سنہا نے معاملہ کو سُنا۔ ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل نیرج ترپاٹھی نے یو پی حکومت کی طرف سے دلائل پیش کئے لیکن یہ ٹیم بڑی ہوگئی۔ عدالت کے فیصلے میں تحریر ہے کہ حکومت کی پیروی کس کس نے کی۔ ایڈوکیٹ جنرل راگھویندر سنگھ، ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل نیرج ترپاٹھی، ایڈیشنل چیف پرمنینٹ کونسل ششانک شیکھر سنگھ، ایڈیشنل چیف پرمنینٹ کونسل ارچنا سنگھ… ان تمام نے یو پی حکومت کی طرف سے دلائل پیش کئے۔
ہائیکورٹ نے لکھنو میں 50 افراد کی تصاویر پر مشتمل بیانرس لگانے کے معاملے کا ازخود نوٹ لیا تھا۔ عدالت نے لکھنو کے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ اور پولیس کمشنر سے وضاحت طلب کی تھی کہ کس قانونی گنجائش کے تحت یہ بیانرس لگائے گئے ہیں۔ حکومت کے چار بڑے ایڈوکیٹس نے عدالت کی پی آئی ایل کے جواز کو چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ ریاست میں کوئی قانونی گنجائش ایسا بیانر لگانے کیلئے نہیں ہے لیکن عدالت نے اس معاملے کا ازخود نوٹ لیتے ہوئے غلطی کی ہے۔ چونکہ بیانر پر جن کے نام ہیں، وہ خود عدالت سے رجوع ہونے کے قابل ہیں، اس لئے عدالت کو مداخلت نہیں کرنا چاہئے تھا۔ ایڈوکیٹ جنرل نے 2010ء کے سپریم کورٹ رہنمایانہ خطوط (پی آئی ایل کیس) کا حوالہ دیا اور کہا کہ عدالت کو واجبی پی آئی ایل کیلئے حوصلہ افزائی کرنا چاہئے۔ غیرضروری عرضیوں کی حوصلہ شکنی کی جانی چاہئے۔ عدالت کو پٹیشنرز کے اعتبار کا جائزہ بھی لینا چاہئے۔ پٹیشن کے مشتملات کی تنقیح بھی ہو۔ جن کی تصاویر بیانر پر ہیں، انھوں نے ہرجانہ کے دعوؤں کو عدالت میں چیلنج کر رکھا ہے۔ اس لئے، یہ پی آئی ایل کی ضرورت نہیں۔ یہ معاملہ لکھنو سے جڑا ہے اور عدالت کے دائرۂ عمل کے تحت نہیں آتا ہے۔
یہ عجیب بحث ہوئی۔ کیا لکھنو کا کوئی انتظامی معاملہ چیف جسٹس الہ آباد ہائیکورٹ کے دائرۂ کار سے باہر ہوسکتا ہے؟ لیکن ایسی بحث کی گئی۔ عدالت نے چار سرکردہ ایڈوکیٹس کو آرٹیکل 21 یاد دلایا جو ہر شہری کو زندگی اور آزادی کا حق دیتا ہے۔ یہ بھی کہا کہ دنیا کا ہر ملک اپنے دستور میں حق رازداری کو تسلیم کرتا ہے۔ پرائیویسی بھی بنیادی حق ہے۔ کسی شخص کے وقار اور جمہوری اقدار بجائے خود پرائیویسی میں پنہاں ہیں۔ آرٹیکل 21 دستور کا پھیپھڑا ؍ شش ہے۔ عدالت نے کہا کہ ہمارے دستوری خاکے میں عاملہ (ایگزیکٹیو)، مقننہ (لیجسلیچر) اور عدلیہ (جوڈیشری) کے مختلف اختیارات ہیں۔ لیکن جب عوامی نظم و نسق یا حکومت کی طرف سے بڑی غفلت برتی جائے، قانون کی تعمیل نہ ہونے لگے، اور نظام انصاف کا نیا رجحان اُبھرنے لگے، تب اس کی اصلاح کیلئے پی آئی ایل داخل کی جاتی ہے۔ زیربحث معاملے میں آرٹیکل 21 کے تحت ضمانت دیئے گئے حقوق مجروح کئے جارہے ہیں۔ اس لئے عدالت کو خود نوٹ لینا پڑا۔ عدالت کی فکرمندی بنیادی حقوق پر حملے کو روکنا ہے۔ ہمارا ازخود نوٹ لینا درست ہے۔

لہٰذا، چیف جسٹس گوئند ماتھر اور جسٹس رمیش سنہا نے واضح کیا کہ 50 افراد کے بیانرس لگاتے ہوئے یو پی حکومت نے بنیادی حقوق اور آرٹیکل 21 کے تحت حق زندگی اور آزادی کی خلاف ورزی کی ہے۔ عدالت نے کہا کہ بیانرس لگاتے ہوئے اڈمنسٹریشن نے شخصی معلومات پیش کرتے ہوئے متعلقین کو پریشانی میں ڈالا ہے۔ گورنمنٹ ایجنسی نے غیرجمہوری انداز میں کام کیا ہے۔ الہ آباد ہائیکورٹ نے اس کے ساتھ مزید کہا کہ سپریم کورٹ کے 2009ء والے ایک حکمنامہ کے مطابق ہرجانہ کی وصولی کا عمل شروع کیا جاسکتا ہے، لیکن اس سے ریاست ؍ مملکت کو ایسی آزادی نہیں مل جاتی کہ کسی کی پرائیویسی کو متاثر کریں۔ ضابطہ فوجداری 1973ء کے تحت صرف عدالت کو وارنٹ کی تعمیل نہ کرنے والے فرد کے خلاف اشاعت کا حکم جاری کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ علاوہ ازیں ایسا کوئی اختیار یا ایسی کوئی اتھارٹی نہیں جس کے تحت کسی کی بھی پرسنل انفرمیشن شائع کی جاسکتی ہے۔ اگر کوئی انصاف سے بھاگ رہا ہے، صرف اسی صورت میں تصویر شائع کی جاسکتی ہے۔ہم نے عدالتی احکام کا لفظ بہ لفظ ترجمہ نہیں کیا بلکہ یہاں مفہوم پیش کرنے کی کوشش کی۔ عدالت نے واضح طور پر کہا کہ حکومت مخصوص لوگوں کو نشانہ بنانا چاہتی ہے۔ یہ بیانرس 16 مارچ سے قبل ہٹا دینے ہوں گے۔
کیا 11 افراد کا مارچ (جلوس) ریاست؍ مملکت کے امن کیلئے خطرہ پیدا کرسکتا ہے؟ 2 فبروری کو اترپردیش کے 6 نوجوانوں نے دہلی کیلئے مارچ شروع کیا۔ ان کی تعداد بڑھ کر 10 ہوئی۔ یہ نوجوان چلتے چلتے قانون شہریت کی خامیوں کے تعلق سے آگاہی دے رہے تھے۔ 11 فبروری کو ان کو غازی پور میں گرفتار کرلیا گیا۔ چھ یوم بعد 16 فبروری کو غیرمشروط رہائی ہوگئی۔ 24 فبروری سے یہ ستیہ گری نوجوانوں نے اپنا مارچ دوبارہ شروع کیا۔ نئے سفر میں پرانے جلوس سے صرف 3 ارکان باقی رہ گئے اور چند نئے نوجوانوں کا اضافہ ہوا۔ اس مرتبہ پیدل چل پڑنے والوں کی تعداد بڑھ کر 20 ہوگئی۔

5 مارچ کو ان ستیہ گری نوجوانوں میں سے 11 گرفتار کرکے فتح پور جیل میں ڈال دیئے گئے۔ ان تمام نے ہندوستان کے عوام کو خط لکھا ہے، جس میں انھوں نے کہا: ’’ہم نے غازی پور سے 600 ٹرپ طے کئے۔ انھیں 5 مارچ کی شب پولیس نے گرفتار کرلیا۔ ان کا دعویٰ ہے کہ پولیس نے ان کو اپنا پروگرام فتح پور میں منعقد کرنے سے منع کیا ہے۔ یعنی ستیہ گرہی قبول نہیں۔ ستیہ گرہی نے کل مذاہب دعائیہ اجتماع چاہا، جس سے کسی طور نقص امن نہیں ہوتا۔ اس پر اسے حسین گنج پولیس اسٹیشن پہنچا دیا گیا۔ ان پر معذرت نامہ پر دستخط کرنے کی شرط لگائی گئی ہے۔ اس میں لکھا ہے کہ ہمیں برقراریٔ امن کے الزام پر گرفتار کیا گیا۔ ہم وعدہ کرتے ہیں کہ آئندہ امن قائم نہیں کریں گے!!! ستیہ گرہیوں نے اس شرط کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔ انھوں نے کہا کہ گاندھی جی کے تعلق سے، امن اور بھائی چارہ کے تعلق سے بات کرنا، اَہنسا (عدم تشدد) کی راہ پر چلنا جرم نہیں ہے۔ ہم گرفتاری کے خوف سے اس ’نامعقول‘ شرط کو قبول نہیں کریں گے۔ ہم اڈمنسٹریشن کے قانونی ضربات برداشت کرنے تیار ہیں۔ یہ آج کے دور کی سیول نافرمانی ہے۔ اسٹوڈنٹس نے اپنے نام آشوتوش رائے، منیش شرما، نیرج رائے، راج وند تیواری، ویویک مشرا، پربھات کمار، جتیش مشرا، پرئیش پانڈے تحریر کئے ہیں۔ ان میں سے ایک کو صحت سے متعلق وجوہات کی بناء چھوڑ دیا گیا ہے۔ گاندھی جی کے عزم و ارادوں کے ساتھ سفر بھی گرفتاری کا موجب ہے۔
ravish@ndtv.com