شعلوں سے بچا شہر تو شبنم سے جلا ہے

   

چوکیدار … حفاظت کے بجائے جاسوسی
مسلم پرسنل لا بورڈ … بیباک رہنمائی کی ضرورت

رشیدالدین
وہ جادو ہی کیا جو سر چڑھ کے نہ بولے۔ قانون فطرت لیکن یہ ہے کہ جادو ہو یا کچھ اور جو چیز بھی سر چڑھ کر بولنے لگتی ہے تو دراصل اس کے زوال کا آغاز ہے۔ کامیابی کے نشہ میں عام طور پر لوگ غرور اور تکبر کا شکار ہوکر من مانی کرنے لگتے ہیں۔ اگر کسی کو اقتدار حاصل ہوجائے تو اس کیلئے توازن اور میانہ روی کی ضرورت ہوتی ہے اور ذرا بھی راستہ بھٹک جائیں تو اچھے اور برے کی تمیز ختم ہوجاتی ہے ۔ اپنا ہر کام اور فیصلہ درست دکھائی دیتا ہے۔ جب کسی کے پاپ کا گھڑا بھر جائے تو سمجھ لیجئے کہ اس کے زوال کا آغاز ہوچکا ہے۔ مرکز کی نریندر مودی حکومت اسی راہ پر چل پڑی ہے اور یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ حکومت کی آنکھوں پر پٹی ہے جس کے نتیجہ میں عوام کی مشکلات اور ان کے جذبات و احساسات کا کوئی علم نہیں۔ حکومت کو اس کا ہر فیصلہ درست اور ملک کے مفاد میں دکھائی دے رہا ہے اور جو کوئی حکومت کی مخالفت کرے ، ملک دشمنی تصور کیا جارہا ہے ۔ جب حکمرانوں میں یہ جذبہ پیدا ہوجائے تو جمہوریت کی جگہ ڈکٹیٹرشپ کا عروج ہوتا ہے۔ 2014 ء میں خوش کن نعروں اور عوام کو اچھے دن کا خواب دکھاکر اقتدار تو حاصل کرلیا گیا لیکن جس طرح کھیر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ہر کسی کو پچتی نہیں۔ اسی طرح بی جے پی کو اقتدار ہضم نہیں ہورہا ہے ۔ آئے دن من مانی فیصلوں نے ملک کو معاشی بحران میں مبتلا کردیا ہے۔ غربت ، بیروزگاری ، بیماری اور مہنگائی جیسے مسائل نے ترقی یافتہ سے ہندوستان کو پسماندہ ممالک کی صف میں کھڑا کردیا ہے ۔

پارلیمنٹ کا مانسون سیشن گزشتہ ایک ہفتہ سے اپوزیشن کے احتجاج کی نذر ہوگیا ۔ عوام کو درپیش کسی بھی مسئلہ پر مباحث نہیں ہوسکے۔ جمہوریت میں قانون ساز ادارے عوامی مسائل کا حل تلاش کرنے کیلئے ہوتے ہیں لیکن مودی حکومت نے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کو اپنی مرضی کے قوانین کی منظوری تک محدود کردیا ہے ۔ کورونا وباء پر قابو پانے میں ناکام حکومت احتیاطی تقاضوں کے تحت ہر شہری کو ویکسین فراہم نہ کرسکی۔ عوام کے سلگتے مسائل پر مباحث سے حکومت کو اس لئے بھی دلچسپی نہیں کہ وہ تلخ حقائق کا سامنا کرنے تیار نہیں ہے ۔ ناکامیوں کے احساس نے حکمرانوں میں زوال کا خوف پیدا کردیا ہے اور عدم تحفظ کے احساس نے اہم شخصیتوں کی جاسوسی تک پہنچادیا ۔ حکومتوں کی جانب سے کسی شخصیت یا ادارہ کی جاسوسی اس وقت کی جاتی ہے جب ملک کی سلامتی کو خطرہ لاحق ہو لیکن یہاں تو حکومت کو خطرہ کے اندیشہ کے تحت نہ صرف اپوزیشن قائدین بلکہ سپریم کورٹ کے ججس ، جہد کاروں ، صحافیوں ، الیکشن کمشنر ، اعلیٰ عہدوں پر فائز افراد حتیٰ کہ اپنے وزراء اور قائدین کی جاسوسی کی گئی ۔ اسرائیلی کمپنی کے سافٹ ویر کے ذریعہ جاسوسی کا یہ معاملہ طشت از بام ہوتے ہی سماج کے ہر شعبہ میں ہلچل پیدا ہوگئی اور اس مسئلہ پر پارلیمنٹ دہل گئی ۔ اسرائیلی کمپنی کے اعتراف کے بعد وزیراعظم اور وزیر داخلہ کے استعفیٰ کے سواء کوئی چارہ نہیں لیکن یہاں حکومت کا حال چکنے گھڑے کی طرح ہے۔ ایک ہفتہ سے ایوان کی کا رروائی نہیں چلی لیکن حکومت نے وضاحت تک نہیں کی ۔ اپوزیشن نے پارلیمنٹ میں نئے وزراء کے تعارف کی اجازت نہیں دی۔ جاسوسی ، مخالف کسان بلز ، مہنگائی اور معیشت کا زوال جیسے مسائل پر اپوزیشن نے حکومت پر ہلہ بول دیا ۔ کم تعداد کے باوجود دو تہائی اکثریت رکھنے والی مودی حکومت اپوزیشن کی برہمی کی تاب نہ لاسکی اور فرار کا راستہ اختیار کرتے ہوئے ایوان کی کارروائی روزانہ ملتوی کی جارہی ہے ۔ دراصل حکومت کے پاس مسائل کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں ہے ۔ عوام نے جس کو محافظ سمجھا اگر وہی رہزن نکلے تو اس سے بڑھ کر اعتماد شکنی اور کیا ہوگی۔ مودی نے خود کو کبھی پردھان سیوک تو کبھی چوکیدار کہا ۔ چوکیدار کا کام حفا ظت کرنا ہوتا ہے لیکن ملک کے چوکیدار نے حفاظت کے بجائے جاسوسی کی ۔ ڈیجیٹل انڈیا نعرہ کی آڑ میں ٹکنالوجی کا استعمال دوسروں کی نجی زندگی میں مداخلت کے لئے کیا گیا ۔ دہشت گردی اور جرائم کی روک تھام کے نام پر حاصل کردہ ٹکنالوجی کا استعمال اہم قومی شخصیتوں کے خلاف کیا گیا۔ یہ قومی سلامتی سے کھلواڑ نہیں تو کیا ہے ۔ نجی ز ندگی (پرائیوسی) ہر شہری کا بنیادی حق ہے لیکن شرم کی بات ہے کہ مودی کابینہ کی خاتون وزراء کی تک جاسوسی کی گئی ۔ مودی حکومت کو آخر کس بات کا خوف اور خطرہ ہے کہ جاسوسی کی ضرورت پیش آئی ۔ غیروں کی جاسوسی تو سمجھ میں آتی ہے لیکن یہاں تو خود اپنے گھر والوں کی جاسوسی کی گئی ۔ خاتون وزراء کے علاوہ آر ایس ایس اور بی جے پی قائدین کے نام بھی ٹارگٹ لسٹ میں بتائے جا رہے ہیں۔ شائد مودی کو اپنی ناکامی کے تحت اپنوں سے بھی خوف ہونے لگا ہے اور درون خانہ بھی وہ عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ جاسوسی معاملہ پر ہمیں کوئی حیرت نہیں ہوئی ۔ وہ اس لئے کہ یہ کام بی جے پی کو ورثہ میں ملا ہے ۔ موروثی اس کام کو مودی اور امیت شاہ کیسے چھوڑ سکتے ہیں۔ ان کے پرکھوں نے آزادی سے قبل انگریزوں کے لئے مجاہدین آزادی کی جاسوسی کی تھی ۔ اس سلسلہ میں دستاویزات بھی منظر عام پر آئے جس میں انگریزوں سے جن سنگھ کے بانیوں نے معافی طلب کی تھی ۔ پرکھوں نے مجاہدین آزادی کی جاسوسی کی تھی ، آج ان کی نسل اپنے ہی ملک کی اہم شخصیتوں کی جاسوسی کر رہی ہے۔ کام تو وہی ہے ، انداز اور نشانے مختلف ہیں۔ دراصل تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے ۔ جس طرح پرکھوں کو انگریزوں کے لئے کام کرنے پر رسوائی ہوئی تھی ، مودی حکومت کو بھی اپنوں کے خلاف جاسوسی کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا ۔

وزیراعظم نریندر مودی سب کا ساتھ سب کا وکاس اور ہر شہری کو ترقی کے یکساں مواقع کے بارے میں دعوے تو کرتے ہیں لیکن یہ نعرے حلق سے نیچے نہیں اترتے۔ پارلیمنٹ کے آغاز پر مودی نے تمام طبقات کو کابینہ میں نمائندگی کا دعویٰ کیا ۔ تمام طبقات سے مراد مودی کے نزدیک صرف ہندو طبقات ہیں۔ ظاہر ہے کہ بی جے پی کی نظر میں مسلمان بیرون ملک سے آئے ہوئے پناہ گز ین ہیں اور انہیں اقتدار میں حصے داری مانگنے کا حق نہیں ۔ کابینہ میں توسیع کے موقع پر ملک کی دوسری بڑی اکثریت کو نظر انداز کیا گیا لیکن قوم کے سامنے دعویٰ تمام طبقات کو نمائندگی کا ہے۔ بی جی پی نے خود کو ہندوؤں کی پارٹی اور ہندوؤں کے مفادات کا تحفظ کرنے والی پارٹی کے طور پر ثابت کیا ہے ۔ اسے مسلمانوں کی نمائندگی سے کیا مطلب ۔ مودی کابینہ میں مسلم کوٹے کے تحت پہلے سے موجود واحد مسلم چہرے کے بارے میں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ۔ بی جے پی کو دراصل ایسے ہی مسلم چہروں کی ضرورت ہے ۔ اسی دوران آل انڈیا مسلم پرسنل لال بورڈ نے اترپردیش اور دیگر ریاستوں میں اسمبلی انتخابات کے پس منظر میں مسلمانوں سے کہا ہے کہ وہ جسے چاہیں ووٹ دیں۔ ووٹ کے استعمال کا اختیار مسلمانوں کی مرضی پر چھوڑ دیا گیا ۔ مسلم پرسنل لا بو رڈ ہندوستان میں مسلمانوں کا ایک نمائندہ ادارہ ہے ۔ اور اس کی جانب سے اہم موڑ پر مسلمانوں کو کسی رہنمائی کے بغیر چھوڑ دینا مناسب نہیں ہے ۔ مسلم پرسنل لا بورڈ کے ذمہ داروں نے ہمیشہ ہر معاملہ میں امت کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیا ہے ۔ مجوزہ اسمبلی انتخابات کی اہمیت اس لئے بھی زیادہ ہے کہ کیونکہ ان میں اترپردیش شامل ہے ۔ علامہ اقبال نے کہا تھا کہ ’’ جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی‘‘۔ ظاہر ہے کہ سیاست اور دین کو جدا نہیں کیا جاسکتا۔ لہذا مسلم پرسنل لا بورڈ مسلمانوں کی سیاسی رہنمائی سے اپنے دامن نہیں بچا سکتی۔ مسئلہ یہاں بی جے پی کی شکست یا کامیابی کا نہیں بلکہ شریعت اور مسلمانوں کے تحفظ کا سوال ہے ۔ کیا پرسنل لا بورڈ ایسی جماعت کی تائید کرسکتا ہے جس نے شریعت میں مداخلت کی ہو۔ ہونا تو یہ چاہئے شریعت اسلامی اور مسلمانوں کے تحفظ کے لئے مخالف شریعت اور مخالف مسلم پارٹی کو شکست کے لئے اپنی بھرپور طاقت استعمال کی جائے ۔ بی جے پی نے طلاق ثلاثہ پر پابندی کے ذریعہ پہلے ہی شریعت میں مداخلت کردی ہے ۔ اب اس کے نشانہ پر نکاح اور دیگر عائیلی قوانین ہیں۔ یکساں سیول کوڈ کا نفاذ بی جے پی اور سنگھ پریوار کا آخری ایجنڈہ ہے ۔ مسلم پرسنل لا بورڈ کو چاہئے تھا کہ وہ ہر اس پارٹی اور امیدوار کی تائید کی اپیل کرے جو بی جے پی کو شکست دینے کی طاقت رکھتا ہو۔ اترپردیش میں ایک طرف شریعت تو دوسری طرف مسلمانوں کا تشخص خطرہ میں ہے ۔ آئے دن مختلف عنوانات سے مسلمانوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے ۔ حد تو یہ ہوگئی کہ یو پی کے ایک وزیر نے حکومت کی مخالفت کرنے پر ممتاز شاعر منور رانا کو انکاؤنٹر میں ہلاک کرنے کی دھمکی دے ڈالی۔ پرسنل لا بورڈ کو یہ بھولنا بنہیں چاہئے کہ حضرت علی میاںؒ نے کس طرح جرات مندانہ قیادت کی تھی۔ مدارس میں سوریہ نمسکار اور سرسوتی وندنا متعارف کرنے کے اعلان پر علی میاں نے دھمکی دی تھی کہ مسلمان اسکولوں سے اپنے بچوں کو نکال لیں گے ۔ صرف ایک دھمکی نے حکومت کو فیصلہ واپس لینے پر مجبور کردیا تھا ۔ پرسنل لا بورڈ کے ذمہ داروں کو علی میاں کا طرز رہنمائی اور قیادت اختیار کرتے ہوئے شریعت اور مسلمانوںکی دشمن جماعتوں کی شکست کے لئے نہ صرف اپیل بلکہ اپنے طور پر کام کرناچاہئے ۔ علی احمد جلیلی نے کیا خوب کہا ہے ؎
روکے سے کہیں حادثۂ وقت رکا ہے
شعلوں سے بچا شہر تو شبنم سے جلا ہے