شمشان گھاٹوں میں آخری رسومات کیلئے جگہ نہیں حکومت کی نااہلی سے لوگوں کی ہلاکت

   

برکھا دت
کورونا وائرس وباء کی دوسری لہر نے سارے ملک میں تباہی و بربادی مچا دی ہے۔ ہر روز لاکھوں کی تعداد میں لوگ متاثر ہورہے ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں اپنی زندگیوں سے محروم ہورہے ہیں۔ دراصل حکومت کی بے حسی، مجرمانہ تساہل، عدم منصوبہ بندی اور نااہلی ہمیں ہلاک کررہی ہے۔ سال 2020ء کی طرف لوٹتے ہیں، اس وقت جیسے ہی کورونا وائرس کی وباء نے زور پکڑنا شروع کیا، تب نریندر مودی کی زیرقیادت مرکزی حکومت نے سارے ملک میں اچانک لاک ڈاؤن نافذ کردیا۔ حکومت کے اچانک فیصلہ کے بعد ہم نے دیکھا کہ لاکھوں کی تعداد میں یومیہ اُجرت پر کام کرنے والے مزدور اپنے اپنے آبائی شہروں اور مواضعات کو جانے کیلئے قومی شاہراہوں پر اُمڈ پڑے ہیں۔ وہ یہ بھی نہیں دیکھ رہے تھے کہ حمل و نقل کے ذرائع ہیں بھی یا نہیں۔ مزدوروں کے یہ قافلے پیدل ہی اپنی منزل کی جانب چل پڑے۔ اُس وقت کے جو مناظر تھے وہ بھی ملک میں کووڈ۔ 19 اور اس سے ہونے والے اثرات سے بچنے کیلئے دیکھے گئے، اب سال 2021ء میں ہمارا ملک اسی طرح کی بے چارگی، بے دردی، سنگدلی، نااہلی اور تنگ نظری کے مناظر کا مشاہدہ کررہا ہے۔ ملک میں کورونا وائرس کی دوسری لہر چل رہی ہے اور اس لہر نے پھر سے لاکھوں افراد کو متاثر کرنے اور ہر روز ہزاروں کو ہلاک کرنے کا کام شروع کردیا ہے۔ قبرستان اور شمشان گھاٹ مُردوں سے بھر گئے ہیں۔ کووڈ۔19 کی دوسری وباء جس تیزی کے ساتھ ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے، اس سے یہی پتہ چلتا ہے کہ اس مسئلہ سے نمٹنے میں نااہلی کا مظاہرہ کیا گیا ، نتیجہ میں آج ہم گھٹنوں پر آگئے ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار اور غیرسرکاری اعداد و شمار کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ متاثرین اور مہلوکین کی تعداد کے بارے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اب تو ہندوستان میں ہر روز 3.4 لاکھ سے زائد افراد کورونا وائرس سے متاثر ہوئے ہیں جبکہ پچھلے چوبیس گھنٹوں کے دوران تقریباً 3 لاکھ 50 ہزار افراد اس وائرس کی زد میں آئے ہیں اور اسی مدت کے دوران 2,624سے زائد افراد موت کے منہ میں گئے ہیں۔ گجرات کے شہر سورت میں ایک ایسا شمشان گھاٹ تھا، جسے 15 سال قبل بند کردیا گیا تھا، لیکن سورت میں کووڈ۔19 کا شکار ہوکر مرنے والوں کی تعداد میں غیرمعمولی اضافہ اور دوسروں شمشان گھاٹوں میں نعشیں جلانے کی جگہوں کی عدم دستیابی کے نتیجہ میں اُس شمشان کو بھی کھول دیا گیا۔ رام ناتھ گھیلا شمشان گھاٹ میں اس قدر زیادہ مردوں کو نذرآتش کیا جارہا ہے کہ بھٹی کے اطراف جو آہنی پل ہیں وہ آگ کی شدت کے نتیجہ میں گل گئے ہیں۔ اس شمشان گھاٹ میں آپ دیکھیں گے کہ چوبیس گھنٹے ارتھیوں کو نذرآتش کیا جارہا ہے۔ اس شمشان گھاٹ میں خدمات انجام دینے والے افراد کا کہنا ہے کہ وہ لوگ ہر روز کم از کم 100 نعشوں کو نذرآتش کررہے ہیں جبکہ حیرت کی بات یہ ہے کہ اسی ہفتہ جو سرکاری اعداد و شمار آئے ہیں، ان میں بتایا گیا ہے کہ ساری ریاست میں ایک ہفتہ کے دوران کووڈ۔19 سے 78 اموات ہوئی ہیں۔
اب غازی آباد چلتے ہیں۔ غازی آباد ایک صنعتی ٹاؤن ہے اور دارالحکومت نئی دہلی سے صرف ایک گھنٹے کا راستہ ہے۔ میں نے پرانی کاروں کے عقبی حصوں میں سفید چادروں میں لپٹی ہوئی بے شمار نعشیں خود دیکھی ہیں۔ دریافت کرنے پر پتہ چلا کہ اس شمشان گھاٹ کے کھلنے کے بعد ان نعشوں کی آخری رسومات کی انجام دہی کیلئے سارا دن درکار ہوگا۔ میں نے خود ایک گھنٹے کے دوران 20 نعشوں کی گنتی کی جبکہ اسی دن سرکاری اعداد و شمار میں مرنے والوں کی تعداد صرف 8 بتائی گئی۔ ان حالات میں ہم یہ یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ اس وائرس نے کتنی زندگیوں کو ہضم کیا ہے۔ تباہی و بربادی کے مناظر صرف گجرات کے سورت یا یوپی کے غازی آباد میں نہیں دیکھے جارہے ہیں بلکہ سارے ہندوستان کا یہی المیہ ہے۔ دواخانوں سے جب متاثرہ لوگ رجوع ہوتے ہیں تو انہیں یہ کہہ کر وہاں سے واپس کردیا جاتا ہے کہ دواخانہ میں بیڈس نہیں ہیں، آکسیجن کی قلت پائی جاتی ہے، فارمیسیوں میں ادویات دستیاب نہیں ہیں۔ وینٹلیٹرس کا تو کہیں پتہ بھی نہیں۔ اس طرح علاج کرانے کی کوشش کی بھاگ دوڑ میں مریضوں اور ان کے رشتہ داروں کی جیبیں خالی ہوجاتی ہیں۔ قومی ایمرجنسی کے اس دور میں آکسیجن کی قلت بہت خطرناک رجحان ہے، کیونکہ مریضوں کو زندہ رکھنے کیلئے آکسیجن کا استعمال ہی واحد طریقہ علاج ہے۔ حد تو یہ ہوگئی ہے کہ بعض دواخانہ میں بھرتی کے خواہاں مریضوں سے اُس درخواست پر دستخطیں حاصل کی جارہی جس میں کہا جارہا ہے کہ وہ یہ خطرہ یا جوکھم قبول کرتے ہیں کہ آکسیجن کی غیرموثر سپلائی سے ان کی موت بھی ہوسکتی ہے۔ یعنی یہ اپنے ہی پروانۂ موت پر دستخط ثبت کرنے سے متعلق 2021ء کا ورژن ہے۔
اب آپ کو ممبئی لئے چلتے ہیں۔ ممبئی کے ایک پیڈیاٹرک آئی سی یو میں میں نے دیکھا کہ ایک 18 دن کا نومولود وینٹلیٹر مشین سے چپکا ہوا ہے اور ہر چند منٹ کے بعد اس کا سینہ اُچھلنے لگتا ہے، شاید اس کے جسم سے جوڑے گئے بے شمار تاروں اور برقی آلات کا یہ نتیجہ ہے۔ ایک چھوٹے سے جسم پر اس قدر زیادہ تار اور آلات جوڑے گئے ہیں۔ اس آئی سی یو میں یکم اپریل سے 17 نومولود بچوں کو شریک کیا گیا ، ان میں سے 9 کی حالت نازک ہے۔ ایک ماہر امراض اطفال ڈاکٹر سونو ادانی نے مجھے بتایا کہ 2020ء میں بچوں کو دواخانہ میں بھرتی کرنے کی بہ مشکل ضرورت پڑتی تھی لیکن اب حالات مختلف ہے۔ کورونا وائرس کی اس دوسری وباء میں جو لوگ مررہے ہیں ، ان میں کم عمر لوگوں کی اکثریت ہے۔ تمام شمشان گھاٹوں اور قبرستانوں کا جہاں میں نے دورے کئے، اور اموات کے بارے میں رپورٹنگ کی، مرنے والوں کی عمر 50 سال سے کم تھی اور بعض تو 20 سال کی عمر کے تھے۔ اگرچہ ملک میں کورونا وائرس کی اس تباہی کا سلسلہ جاری ہے، اس پر ستم ظریفی یہ کہ ملک کی مشرقی ریاست مغربی بنگال میں چند دن قبل تک بھی انتخابی جلسے اور ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں لوگوں کی ریالیاں منسوخ نہیں کی گئی جو ہمارے سیاست دانوں کی بے حسی کو ظاہر کرتی ہیں۔ مودی حکومت نے کورونا وائرس کی پہلی لہر کی طرح دوسری لہر میں بھی بھیانک غلطیوں کا ارتکاب کیا ہے۔ سب سے بڑی غلطی اس نے یہ کی ہے کہ دوسری لہر کیلئے کوئی ہنگامی منصوبہ بندی نہیں کی گئی۔ ٹیکہ اندازی مہم بھی بہت سست روی کا شکار ہے۔ لال فیتہ ، بیرونی ساختہ ٹیکوں کے استعمال کی منظوری رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ ہم نے پچھلے دو ماہ کے دوران کورونا وائرس پر موثر انداز میں قابو پانے کا موقع کھو دیا اور اس پر طرفہ تماشہ یہ کہ ملک میں تیار کردہ ٹیکے دوسرے ممالک کو برآمد کئے گئے یا چھوٹے چھوٹے ملکوں کو بطور تحفہ پیش کئے گئے۔
افسوس تو اس بات پر ہوتا ہے کہ ملک کے سنگین حالات کے باوجود ہمارے سیاست داں بشمول وزیراعظم نریندر مودی کس طرح کی روش اختیار کئے ہوئے ہیں۔ لوگ مر رہے ہیں، دواخانے بند ہورہے ہیں اور یہ لوگ انتخابی جلسوں سے خطاب کررہے ہیں۔ مودی جی کو تو اپنی انتخابی مہم ختم کرنے کا بہت پہلے ہی فیصلہ کرلینا چاہئے تھا۔ مجھے بھی تکلیف دہ تجربہ سے گذرنا پڑا۔ میرے والد جن کی عمر 80 سال ہے، شوگر سے متاثر ہیں۔ طبیعت بگڑنے کے باعث انہیں ایمبولنس کے ذریعہ آئی سی یو منتقل کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ چونکہ ہمارا نظام صحت عامہ ٹھپ ہوکر رہ گیا ہے ، ارکان خاندان نے ایک خانگی ایمبولینس استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔ خانگی ایمبولینس جب گھر پہنچی تو صرف اس میں ڈرائیور تھا، کوئی پیرامیڈک نہیں۔ ہاں ایک آکسیجن سیلنڈر تھا جو کام نہیں کررہا تھا، نتیجہ میں جب ہم دواخانہ پہنچے تو میرے والد کے جسم میں آکسیجن کی سطح خطرناک حد تک کم ہوگئی لیکن میری خوش قسمتی تھی کہ تھوڑی جدوجہد کے بعد آئی سی یو بیڈ مل گیا ۔تب مجھے وہ ہزاروں خاندان یاد آئے جن سے میں نے ہندوستان بھر کے مقامات پر بات کی تھی۔ اسی دوران ایک ڈاکٹر کی بتائی گئی بات اب بھی میرے کانوں میں گونج رہی ہے جب کسی کو آکسیجن فراہم نہ کرنے پر وہ موت کا شکار ہوجاتا ہے تو پھر اس شخص کی موت طبعی موت نہیں بلکہ قتل ہے۔