شہرت کی بلندی بھی پل بھر کا تماشہ ہے

,

   

سیمی فائنل 2023 … راہول اور پرینکا کی دھوم
حلال کے مسئلہ پر نفرت کی سیاست

رشیدالدین
اقتدار کسی کا دائمی نہیں ہوتا اور قانون فطرت میں عروج کے ساتھ زوال یقینی ہے۔ ہندوستان کی 75 سالہ تاریخ میں کئی ایسے قائدین ابھرے جو ناقابل تسخیر تصور کئے جارہے تھے لیکن زمانہ نے ان کا بھی زوال دیکھا۔ خاتون آہن اندرا گاندھی جن کو اٹل بہاری واجپائی نے درگا دیوی کا خطاب دیا تھا، ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد ان کا بھی زوال عوام نے دیکھا۔ راجیو گاندھی اقتدار سے محرومی کے تجربہ سے گزرچکے ہیں۔ علاقائی سطح پر ملائم سنگھ یادو ، لالو پرساد یادو ، شرد پوار ، ایم کروناندھی ، جیہ للیتا ، ممتا بنرجی ، این ٹی راما راؤ اور چندرا بابو نائیڈو جیسے قائدین کا اقتدار بھی دیرپا ثابت نہیں ہوا۔ ملک کی پانچ ریاستوں کے اسمبلی چناؤ پر عوام کی نظریں ہیں کیونکہ یہ فائنل 2024 ء کا سیمی فائنل ہے۔ جو پارٹی سیمی فائنل میں کامیاب ہوگی ، اس کیلئے فائنل جیتنے کے امکانات روشن ہوسکتے ہیں۔ نریندر مودی 2014 ء میں وزارت عظمیٰ پر فائز ہوئے اور 2019 ء میں دوسری مرتبہ کامیابی کے بعد وہ خود کو ناقابل تسخیر تصور کرنے لگے۔ مودی اور ان کی حکومت کی برقراری یا پھر زوال کا فیصلہ پانچ ریاستوں کے نتائج سے ہوگا۔ بی جے پی اور کانگریس دونوں کیلئے سیاسی سیمی فائنل کرو یا مرو کی لڑائی کی طرح ہے۔ پانچ ریاستوں میں میزورم ، چھتیس گڑھ ، مدھیہ پردیش اور راجستھان میں عوام کا فیصلہ محفوظ ہوچکا ہے جبکہ تلنگانہ میں 30 نومبر کو رائے دہی سے سیمی فائنل مکمل ہوجائے گا اور 3 ڈسمبر کو نتائج کا اعلان ہوگا۔ سیمی فائنل کی 4 ریاستوں میں 2 کانگریس ، ایک بی جے پی اور ایک بی آر ایس زیر اقتدار ریاستیں ہیں۔ کانگریس کیا چھتیس گڑھ اور راجستھان میں اقتدار کو بچا پائے گی یا پھر بی جے پی سے مدھیہ پردیش چھیننے میں کامیاب ہوگی؟ 2014 ء کے بعد زیادہ تر ریاستوں کے چناؤ میں بی جے پی نے حکومت تشکیل دی۔ بعض ریاستوں میں انحراف کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے حکومت قائم کی گئی جن میں مدھیہ پردیش اور مہاراشٹرا اہمیت کے حامل ہیں۔ کانگریس پارٹی جسے ریاستوں میں مسلسل ہزیمت کا سامنا تھا ، اس کے اچھے دنوں کی شروعات اروناچل پردیش اور کرناٹک سے ہوئی ہے۔ کامیابی کا یہ تسلسل پانچ ریاستوں میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ چھتیس گڑھ میں اقتدار کی برقراری کے ساتھ کانگریس مدھیہ پردیش کے بی جے پی قلعہ پر پارٹی پرچم لہرانے کے موقف میں دکھائی دے رہی ہے۔ راجستھان میں کانٹے کا مقابلہ ہے جبکہ تلنگانہ میں تبدیلی کا رجحان کانگریس کی 10 سال بعد نئی ریاست میں اقتدار میں واپسی کا اشارہ دے رہا ہے۔ اگر تین ریاستوں پر کانگریس کا قبضہ ہوتا ہے تو یہ آئندہ لوک سبھا چناؤ میں بہتر مظاہرہ کی ضمانت اور بی جے پی کیلئے زوال کی شروعات ہوسکتی ہیں۔ بالفرض بی جے پی مدھیہ پردیش ہار جاتی ہے تو چار ریاستوں کی کامیابی کے ساتھ کانگریس انڈیا اتحاد کے حلیفوں کیلئے ناقابل چیلنج بن جائے گی ۔ جس طرح ہم نے آغاز میں کہا کہ اقتدار کسی کیلئے دائمی نہیں ہوتا لہذا 10 سال کے بعد نریندر مودی کی باڈی لینگویج خود بتارہی ہے کہ حکومت میں سب کچھ ٹھیک نہیں ہے ۔ مودی کرشمہ کمزور پڑچکا ہے اور 2024 ء میں اقتدار کی ہیٹ ٹرک کے آثار کم ہیں۔ چار ریاستوں کی انتخابی مہم میں فلمی نغمہ ’’ہر طرف تیرا جلوہ‘‘ کی طرح راہول گاندھی اور پرینکا گاندھی کا جلوہ دکھائی دے رہا ہے۔ طویل عرصہ بعد کانگریس کو دو کرشماتی چہرے ملے ہیں جو ووٹ حاصل کرنے کی مشن کی طرح ہیں۔ کنیا کماری سے کشمیر تک بھارت جوڑو یاترا نے راہول گاندھی کی قائدانہ صلاحیتوں کو نکھار دیا ہے ۔ پرینکا گاندھی اپنی دادی اندرا گاندھی کی زیراکس کاپی ہیں جو اپنی ماں سونیا گاندھی کا سہارا بن چکی ہیں۔ کانگریس کو تین ریاستوں میں کامیابی ملے یا پھر چاروں ریاستوں میں کانگریس کا پرچم لہرائے دونوں صورتوں میں کامیابی کا سہرا بھائی بہن کی جوڑی کو جائے گا۔ 2019 ء تک مودی کی جملہ بازی اور تک بندی کا مقابلہ کرنے والا کوئی نہیں تھا لیکن بھارت جوڑو یاترا نے محنت اور مشقت کے ایندھن میں تپاکر راہول کو کندن بنادیا ہے اور وہ نریندر مودی کے ہر حملہ کا موثر جواب دینے کی صلاحیت حاصل کرچکے ہیں۔ عوام کے دلوں کو چھونے والی پرینکا گاندھی کی تقاریر جادوئی اثر کی طرح ہیں۔ چاروں ریاستوں کے بارے میں اب تک کے زیادہ تر سروے کانگریس کے لئے اچھے دنوں کا اشارہ دے رہے ہیں۔ راہول گاندھی جنہیں کل تک سیاسی ناتجربہ کاری کے سبب پپو اور امول بے بی کہا جاتا تھا ، آج وہ مودی کیلئے مورکھوں کے سردار بن گئے۔ یہ جملہ بلکہ نریندر مودی کے حملہ میں شکست کا خوف ظاہر ہورہا ہے ۔ راہول گاندھی نے اس کا موثر جواب دیتے ہوئے ہندوستانی کرکٹ ٹیم کیلئے وزیراعظم کو بدشگون تعبیر کیا۔ امیت شاہ کل تک اچھل اچھل کر ’’راہول بابا‘‘ کو نشانہ بناتے رہے لیکن آج بی جے پی کیلئے بھائی بہن کا مقابلہ کرنا آسان نہیں ہے ۔ بی جے پی کو راہول ۔ پرینکا سے زیادہ گلیمر اور مقبولیت رکھنے والے چہروں کو تلاش کرنا پڑے گا۔ بی جے پی میں فی الوقت مودی اور امیت شاہ طبعی عمر کو پہنچ چکے ہیں اور یوگی ادتیہ ناتھ خود پارٹی قائدین کیلئے قابل قبول نہیں ہوسکتے۔ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ راہول۔پرینکا جوڑی کانگریس کے مرکز میں اقتدار کی واپسی میں اہم رول ادا کریں گے۔
بی جے پی نے چار ریاستوں کی امکانی شکست کو محسوس کرتے ہوئے ابھی سے 2024 ء لوک سبھا چناؤ کی تیاریوں کا آغاز کردیا ہے ۔ سیاسی مبصرین چار ریاستوں میں شکست کی صورت میں لوک سبھا کے عاجلانہ انتخاب کی پیش قیاسی کر رہے ہیں لیکن اس طرح کا کوئی بھی اقدام بی جے پی کیلئے خودکشی کے مترادف ہوگا۔ بی جے پی لوک سبھا چناؤ میں فرقہ وارانہ ایجنڈہ کو ہوا دے سکتی ہے تاکہ اکثریتی طبقہ کے ووٹ حاصل ہوسکیں۔ رام مندر کا 22 جنوری کو افتتاح ہونے جارہا ہے اور ملک بھر سے ہندوتوا طاقتوں کو ایودھیا میں جمع ہونے کی ہدایت دی گئی ہے۔ بی جے پی رام مندر کی تعمیر کو ایک اہم ہندوتوا ایجنڈہ کی تکمیل اور اپنے کارنامہ کے طور پر پیش کرے گی۔ مبصرین کا ماننا ہے کہ رام مندر کا مسئلہ اب رائے دہندوں کی دلچسپی کا نہیں رہا۔ جس وقت بابری مسجد شہید ہوئی اسی دن رام مندر کا ایشو ختم ہوگیا کیونکہ مسجد کو باقی رکھتے ہوئے سیاست کرنے میں جو فائدہ تھا، وہ شہید کرنے کے بعد باقی نہیں رہا۔ مسجد کی شہادت کے بعد مندرکی تعمیر کی راہ ہموار ہوچکی تھی جس پر سپریم کورٹ نے اپنی مہر لگادی۔ افتتاحی تقریب کے نام پر بی جے پی لاکھ شعبدہ بازی کرلے لیکن اسے کوئی فائدہ نہیں ملے گا۔ اترپردیش میں حلال اشیاء کے خلاف اچانک یوگی حکومت نے کریک ڈاؤن شروع کیا ہے۔ حکومت کے مطابق کسی بھی شئے پر حلال کا لیبل نہیں لگایا جاسکتا۔ جو ادارے حلال کا سرٹیفکٹ دے رہے ہیں، ان کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا گیا۔ حلال اور غیر حلال کا مسئلہ عوام سے کوئی تعلق نہیں رکھتا ، سوائے اس کے کہ مسلمان حلال اشیاء کے استعمال کو ترجیح دیتے ہیں۔ اکثریتی طبقہ کیلئے اس میں کوئی اعتراض نہیں ہے۔ دراصل بی جے پی اور سنگھ پریوار کو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کو ہوا دے کر سیاسی فائدہ حاصل کرنا ہے۔ ابھی سے 2024 ء کے الیکشن ماحول کو گرم رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ اذاں ، نماز اور حجاب کے بعد ہندوتوا طاقتوں نے اب حلال کو موضوع بحث بنایا ہے تاکہ اترپردیش ، بہار اور دیگر بڑی ریاستوں میں فرقہ وارانہ اساس پر ووٹ تقسیم کئے جاسکیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یوگی ادتیہ ناتھ کو حلال سے اعتراض کیوں؟ بی جے پی کے موجودہ قائدین شائد بھول گئے ہیں کہ بچپن میں ان کے والدین گاؤں اور دیہاتوں میں گھر میں کسی دعوت سے قبل مسلمان کے ذریعہ جانور حتیٰ کہ مرغی کو حلال کراتے اور حلال کرانے میں صحت کی حفاظت اور برکت کا تصور تھا۔ آباء واجداد نے خود بی جے پی قائدین کو بچپن میں حلال غذائیں کھلائی ہیں لیکن آج ان ہی قائدین کو حلال سے نفرت ہوچکی ہے۔ نان ویجیٹیرین غذائیں استعمال کرنے والے غیر مسلم افراد خود اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ حلال اور غیر حلال کے ذائقہ میں نمایاں فرق ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ جس ذبیحہ پر اللہ تبارک و تعالیٰ کا نام لیا جائے اس میں برکت کا ہونا یقینی ہے ۔ آسام کے چیف منسٹر ہیمنت بسوا شرما حیدرآباد پہنچ کر زہر افشانی کرنے لگے۔ تلنگانہ کی انتخابی مہم میں حصہ لینے کیلئے بسوا شرما حیدرآباد پہنچے تھے یہاں انہوں نے اعلان کیا کہ بی جے پی برسر اقتدار آتے ہی چند منٹ میں حیدرآباد کا نام بدل کر بھاگیہ نگر رکھ دیا جائے گا۔ چیف منسٹر آسام کو ویسے بھی دن میں خواب دیکھنے کی کچھ زیادہ ہی عادت ہوچکی ہے۔ سیاسی قائدین کیلئے بشیر بدر کا یہ شعر نذر ہے ؎
شہرت کی بلندی بھی پل بھر کا تماشہ ہے
جس ڈال پہ بیٹھے ہو وہ ٹوٹ بھی سکتی ہے