شہریت ترمیمی ایکٹ سے لگی آگ عجیب شخص ہے سایہ تلاش کرتا ہے

   

غضنفر علی خان

اس وقت ہندوستان دہک رہا ہے ، شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف سارے ملک میں عوامی غصہ میں آگ لگادی ہے ۔ یہ آگ بجھتی نظر نہیں آئی، مذکورہ ایکٹس کے نفاذ نے خاص طور پر طلبہ برادری کو بے چین کردیا ہے ۔ یہ ایکٹ کسی اور نے نہیں خود وزیراعظم اور ان کے عقل کل وزیر داخلہ امیت شاہ نے لگائی ہے ۔ ہمارے خیال میں امیت شاہ کا شمار مودی کے ایسے ہمدردوں و دوستوں میں ہوتا ہے جن کی موجودگی میں کسی دشمن یا دشمنی کی ضرورت نہیں ۔ کہنے کو یہ ایکٹ یا قانون امیت شاہ کے مطابق سارے ملک میں لاگو ہونے والا ہے ، اس کے آثار تو نظر نہیں آتے بلکہ اس کی مخالفت بڑی شدت کے ساتھ ملک کے گوشے گوشے میں بڑھتی جارہی ہے ۔ گویا مودی ۔ ا میت شاہ کی قیادت اس ناعاقبت اندیش لیڈروں کی طرح ہے جو ملک کے ماحول کو سخت دشواریوں کا شکار کردیا ہے کیونکہ دونوں یہ سمجھتے ہیں کہ ملک کیلئے یہ دونوں جو بھی فیصلہ کریں گے وہ مفید ثابت ہوگا لیکن ان کے اس فیصلہ نے اپوزیشن اور ملک کے دانشوروں ، عام شہریوں اور طلباء برادری کو مشتعل کردیا ہے ۔ مخالفت کی ہوا ان شعلوںکو اور بھی تیز کر رہی ہے ، یہ سوال اہم ہے کہ آخر اس قانون کی کیا واقعی ملک کو ضرورت تھی اور کیا اس قانون کی تدوین سے قبل موجودہ حکومت نے رائے عامہ کو معلوم کرنے کی واقعی ضرورت محسوس نہیں کی یا عجلت میں مسئلہ کی سنگینی کو جانے بغیر ان دونوں نے اپنی اکثریت کی بنیاد پر اسے مدون کیا اور نبض ٹٹولے بناء اس کو زبردستی عوام پر مسلط کردیا گیا ۔ ہندوستان میں شہریت کبھی بھی اتنا سنگین مسئلہ نہیں تھی کہ بلا سوچے سمجھے اس کے عواقب و نتائج کو ملحوظ رکھے بغیر قانون سازی کی جاتی ، یہ مسئلہ کہ ملک میں تارکین وطن کی تعداد تشویشناک حد تک بڑھ چکی ہے ۔ ازل سے چلا آرہا ہے ، بنیادی طور پر تارکین وطن کا مسئلہ شمال مشرقی ریاستوں اور بالخصوص آسام سے تعلق رکھتا ہے ، جہاں اس کی اتنی شدت سے مخالفت ہورہی ہے کہ ہر طرف آتش زنی ، پولیس فائرنگ کے ساتھ ہلاکتوں کا معاملہ بھی پیش آرہا ہے۔ حکومت اس وبال کو روکنے کیلئے طاقت ، استعمال کر رہی ہے جو کہ ایسا علاج ہے جس سے مرض بڑھتا ہی جائے گا ، عوام یہ پوچھ رہے ہیں کہ کیوں شہریت بل منظور کیا گیا ، اس کی کیوں ضرورت محسوس کی گئی جبکہ ملک اس سے زیادہ گمبھیر مسائل سے دوچار ہے ۔ موجودہ حکومت کے اس دور میں سب سے زیادہ بڑا مسئلہ ملک کی معیشت کا انحطاط ہے ، ملک میں بیروزگاری بڑھ رہی ہے۔ روزگار کے نئے مواقع جنم نہیں لے رہے ہیں، صنعتی پیداوار اتنی کم ہوگئی ہے کہ اس کی کوئی مثال ماضی میں دیکھنے کو نہیں ملتی ۔ قتل و غارت گری کا بازار ہر شعبہ حیات میں بڑھ گیا ہے۔ ملک کی بیٹیاں آبرو ریزی اور قتل کی شکار ہر وقت و ہر آن ہوتی جارہی ہیں ۔ انصاف تو نام کا نہیں دیکھا جارہا ہے ، پھر ان تمام مسائل کی یکسوئی کے بغیر شہریت کے مسئلہ کو کیوں توجہ دی جارہی ہے ۔ ا یک بات سمجھ میں آتی ہے کہ ان مسائل پر سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لئے یہ سارا کھیل رچا جارہا ہے لیکن عوام بخوبی سمجھتے ہیں کہ ان کے ساتھ یہ کھیل محض حکومت کی ایک چال ہے لیکن وہ حکومتیں جو بنیادی مسائل کو نظر انداز کرتے ہوئے کم تر اہمیت کے مسائل کو اٹھاکر اصل مسائل کو ٹالا جارہا ہے ، خاص کر طلباء برادری اس بات کو اچھی طرح سمجھ گئی ہے ۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ بھی احتجاج کا ایک اہم مرکز بن چکا ہے ۔ گزشتہ ہفتہ اس یونیورسٹی کے طلباء ، اساتذہ پروفیسرس اور غیر تدریسی عملہ نے جب اپنا احتجاج بلند کیا تو ان پر قیامت ٹوٹ پڑی ، احتجاجی طلباء پر پولیس نے لاٹھی چارج کیا اور پولیس کی زیادتی کا یہ عالم تھا کہ جامعہ ملیہ کے وہ طلباء جو ہاسٹل میں مقیم تھے۔ وہ ہاسٹل چھوڑ کر اپنے گھروں کا رخ کیا۔ یہ خیال بالکل ناقابل فہم ہے کہ مسلمان اس قانون کے خلاف مظاہرے کر رہے ہیں۔ جامعہ ملیہ کی طلباء برادری صرف مسلم طلباء پر مشتمل نہیں ہے، اس میں سینکڑوں ہندو طلباء بھی شامل ہیں چنانچہ ایک طالبہ جو غیر مسلم ہیں اپنے پر برستی ہوئی پولیس لاٹھیوں سے زخمی ہونے کے بعد میڈیا سے یہ کہا کہ میں تو ایک ہندو لڑکی ہوں مجھ پر پولیس نے یہ زیادتی کی ہے ۔ یونیورسٹی کا ہاسٹل چھوڑ کر میں اپنے گھر جارہی ہوں۔ شمال سے جنوب تک احتجاج بلند ہورہا ہے ۔ ایسی مثالیں بھی دیکھی گئی کہ احتجاج کے دوران ہندو طلباء اور بھائیوں نے احتجاج کرنے والے مسلم طلبہ کی حفاظت کی اور نماز کے دوران ڈھال بن کر کھڑے ہوگئے ۔ دوسری طرف پولیس اپنی زیادتیوں کو جاری رکھی ہوئی تھی ۔ نہ صرف طلبہ برادری میں ایسے مظاہرے دیکھے گئے بلکہ بنگلورو میں ہزاروں غیر مسلم بھائیوں نے احتجاج میں شامل ہوکر یہ ثبوت دیا کہ بھارت دیش صرف ہندو ازم سے عبارت نہیں ہے بلکہ یہاں صدیوں سے جاری مشترکہ تہذیب ہندوستان کے تمام مذاہب کے ماننے والوں کیلئے انتہائی ضروری ہے ۔ جامعہ ملیہ کے طلبہ پر ظلم و زیادتی کو مہاراشٹرا کے چیف منسٹر ادھو ٹھاکرے نے اس واقعہ کو 2019 ء کا جلیان والا باغ قرار دیا جو انگریزوں کے ظلم کی انتہائی تکلیف دہ یاد ہے ۔ کمیونسٹ ذہن و فکر رکھنے والے اسی یونیورسٹی کے طلبہ لیڈر نے اپنے ایک احتجاجی بیان میں راست طور پر وزیراعظم مودی کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ’’آپ کو پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل ہے لیکن ملک کے گلی کوچوں اور سڑکوں پر اکثریت حاصل نہیں ہے۔ آپ ہماری بات نہیں مانتے توہم آپ کی حکومت کو نہیں مانتے۔ اسی طرح مشہور روشن خیال آزاد فکر رکھنے والی مصنفہ انورادتی نے بھی حکومت کو چیلنج کیا ہے کہ حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے اردو کے مشہور مزاح نگار جناب مجتبیٰ حسین نے آج کی پھیلی ہوئی بدنظمی اور ناعاقبت اندیشی جو حکومت کر رہی ہے ، اس کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے اپنا پدم شری خطاب کو واپس کردیا ہے ۔ یونیورسٹیز میں اس احتجاج کے بے حد خطرناک نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ ابھی تک ملک کی 22 نامور یونیورسٹیز میں یہی صورتحال ہے، ملک کی پانچ ریاستوں کے وزیر اعلیٰ اس قانون کو لاگو کرنے سے انکار کردیا ہے ، کئی ریاستوں نے ایسے قانون کے بارے میں اپنے تذبذب کا اشارہ دیا ہے ، کیا یہ تحریک و احتجاج مزید شدت اختیار کرے گا اور اس کے کیا نتائج نکلیں گے ۔ یہ سب پر واضح ہے لیکن امیت شاہ جو وزیر داخلہ ہے وہ اپنی ضد پر اڑے ہوئے ہیں کہ اس تنازعہ قانون کو بہر صورت نافذ کرے ، ان کو (امیت شاہ) اس بات کی کوئی فکر نہیں ہے کہ ایسے احتجاج کیا رنگ لاسکتے ہیں ۔ وہ ایک ریاست کے وزیر داخلہ تھے اور وہ اب ہندوستان کے وزیر داخلہ بن بیٹھے لیکن انہیں ملک کے اجتماعی مزاج کا کوئی اندازہ نہیں ہے ۔ گجرات کے مسلم کش فسادات کے ذمہ دار امیت شاہ یہ سمجھتے ہیں کہ ملک میں ان کی بات آسانی سے سنی جائے گی اور تو اور امریکہ کے سیاستدانوں نے بھی اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے اختیارات کو کم کیا جانا چاہئے ۔ صرف ہندوستان میں نہیں بلکہ ساری دنیا میں اس قانون کے نفاذ کے خلاف یہ تشویش ظاہر کی جارہی ہے کہ یہ ہندوستان کی تاریخ اس کے تمدن و تہذیب اور اس سے بڑھ کر اس کے دستور کی سراسر خلاف ورزی ہے ۔ اب یہ صورتحال ہے کہ اس قانون کو واپس لیتے ہوئے اس کی جگہ رائے عامہ ہموار کر کے کوئی نیا قانون مدون کیا جانا چاہئے ورنہ ملک کی سالمیت کو شدید خطرہ لاحق ہوگا ۔
لگاکر آگ درختوں کو اپنے ہاتھوں سے
عجیب شخص ہے سایہ تلاش کرتا ہے