شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج ، ایوارڈ واپسی

   

تلنگانہ / اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
ملک بھر میں شہریت ترمیمی بل اور این آر سی کے خلاف احتجاج میں شدت پیدا ہوگئی ہے ۔ اس ملک کو مذہب کی بنیاد پر تباہ کرنے کا بیڑہ اٹھانے والی آر ایس ایس نظریات پر عمل پیرا بی جے پی حکومت نے اپنی غلط پالیسیوں اور متعصبانہ اقدامات سے انتشار پیدا کردیا ہے ۔ گذشتہ 6 سال کے دوران ہندوستان کی معیشت ، کرنسی ، زراعت ، تعلیم ، روزگار ، جمہوریت ، عدلیہ ، عددی قوت ، فوجی طاقت ، سرحدی سلامتی ، فرقہ وارانہ ہم آہنگی ، یکجہتی الغرض ہر چیز تباہی کے دہانے پر پہنچا دی گئی ۔ تجارت و صنعت ٹھپ ہے ۔ سرمایہ کاری صفر ہوچکی ہے ۔ ان تلخ تعلق کے باوجود ملک کا ایک متعصب ٹولہ من مانی طور پر قوانین منظور کروانے میں کامیاب ہوا ہے ۔ راجیہ سبھا میں شہریت ترمیمی بل کی منظوری اور دوسرے ہی دن صدر جمہوریہ کی توثیق کے 24 گھنٹوں کے اندر ملک کے ہر گوشے سے احتجاجی صدائیں بلند ہونے لگی اور اردو ادب کے مایہ ناز شخصیتوں نے بھی اپنے ایوارڈس واپس کردئیے ۔ آزاد ہند کے بعد سے مسلمانوں نے عجب دور دیکھے ہیں۔ ناانصافیوں ظلم و زیادتیوں کے خلاف اردو والوں نے ہر وقت اپنا احتجاج درج کروایا ہے ۔ اردو والوں نے وہ دور بھی دیکھا ہے جب اقتدار مسلمانوں اور سیکولر ہندوستان کا فخریہ مقام رکھتا تھا اب یہ دور ایسا ہے جہاں اقتدار بہرہ ہے ۔ متعصب ہے ، کسی کی بات سنتا ہی نہیں ہے ۔ اقتدار پر فائز ہر لیڈر عقل و ہوش سے بے بہرہ نظر آتا ہے ۔ یہ حکمراں طاقتیں انسانوں کو ذلیل کرنے کے ہر طریقہ اپنا رہی ہیں ۔ یہ ماحول اہل وطن کے لیے قہر سے کم نہیں ہے ۔ ہندوستان کے اصل مسائل سے راہ فرار اختیار کرتے ہوئے متنازعہ فیصلوں کے ذریعہ عوام کو گمراہ کیا جارہا ہے ۔ اس طرح کی ظلم و زیادتیاں حد سے بڑھ جاتی ہیں تو عوامی احتجاج میں شدت پیدا ہوتی ہے ۔ شہریت ترمیمی بل کے خلاف احتجاج سارے ملک میں پھیل چکا ہے ۔ سب سے زیادہ طلباء برادری نے اپنے غم و غصہ کا مظاہرہ کیا ۔ گذشتہ ہفتہ جامعہ ملیہ اسلامیہ ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلباء وطالبات کے احتجاج کو کچلنے کے لیے پولیس کے طاقت کا استعمال کیا گیا ۔ اس بربریت اور جارحیت کے خلاف ملک کے قد آور شخصیتوں ادیبوں ، فنکاروں نے بھی صدائے احتجاج بلند کیا ۔ ممتاز مزاح نگار اور ادیب جناب مجتبیٰ حسین نے متنازعہ شہریت ترمیمی قانون کی عمل آوری کے خلاف احتجاجاً اپنا پدم شری ایوارڈ واپس کردیا ہے ۔ انہوں نے ایوارڈ کی واپسی کا فیصلہ کرتے ہوئے جن احساسات کا اظہار کیا وہ سچے جمہوریت پسند سیکولر شہری کی عکاس ہے ۔ جس جمہوریت کی بقا کے لیے اردو شخصیتوں نے اپنا اہم کردار ادا کیا ہے

آج اس جمہوریت کی قدروں کو پامال کرنے والی کارروائیاں ہورہی ہیں ۔ اس حکومت کے ساتھ اپنی وابستگی کو ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے اپنا احتجاج درج کروایا ہے ۔ اب مرکزی حکومت کے لیے ایک آزمائش ہے ۔ اس وقت لوگوں میں سخت غم اور غصہ ہے ۔ سیاسی بے چینی ہے اور اس میں ایک اچھی بات یہ ہے کہ مسلمانوں کا ساتھ دینے کے لیے سیکولر ابنائے وطن آگے آرہے ہیں ۔ یونیورسٹیوں میں طلباء کا احتجاج ہندوستانی عوام میں تحریک پیدا کررہا ہے ۔ حکومت کی زیادتیوں اور غلط حکمرانی پر احتجاج کرتے ہوئے سرکاری عہدیداروں نے بھی اپنے عہدے چھوڑ دینا شروع کیا ہے ۔ سیول نافرمانی کا آغاز ہوجانا موجودہ حکومت کے لیے تباہ کن ہے ۔ جس حکومت نے اپنے ناپاک منصوبوں کے ذریعہ اس ملک کے مسلمانوں کو تباہ کرنا چاہا اب اسے احتجاج کی شکل میں اپنی تباہی دیکھنی ہوگی ۔ شہریت ترمیمی بل پر راجیہ سبھا میں ابھی بحث چل ہی رہی تھی کہ ایک سینئیر آئی پی ایس عہدیدار عبدالرحمن نے اپنی سرویس سے استعفیٰ دے دیا ۔ اس فیصلہ کو سیول نافرمانی کے طور پر سمجھا گیا ۔ سوشیل میڈیا پر اپنا استعفیٰ پوسٹ کرتے ہوئے 1997 بیاچ کے آئی پی ایس آفیسر مہاراشٹرا کیڈر عبدالرحمن نے بل کی مذمت کی ۔ اسی طرح ممبئی کی اردو صحافی اور مصنفہ شیرین دلوی نے بھی اسٹیٹ ساہتیہ اکیڈیمی ایوارڈ واپس کردیا ۔ قانون کو غیر انسانی قرار دیتے ہوئے اپنا احتجاج درج کروانے والوں کی تعداد بڑھتے جارہی ہے ۔ دستور ہند اور ملک کے سیکولرازم پر حملہ کرنے والا یہ قانون فوری واپس لینے تک احتجاج جاری رہے گا ۔ شیرین دلوی کو 2019 میں ان کی ادبی خدمات پر ایوارڈ دیا گیا تھا ۔ ان کے بعد ایک اور اردو مصنف اور مترجم یعقوب یاور نے بھی اترپردیش اسٹیٹ اردو اکیڈیمی واپس کرنے کا اعلان کیا ۔ مجتبیٰ حسین صاحب کو اردو ادب میں ان کی گراں قدر خدمات پر 2007 میں صدر جمہوریہ اے پی جے عبدالکلام کے ہاتھوں پدم شری ایوارڈ حاصل ہوا تھا ۔ 83 سالہ مجتبیٰ حسین صاحب نے کئی درجن کتابوں کے مصنف ہیں ۔ کئی ریاستوں میں حکومت کے اردو نصاب میں ان کی تحریریں شامل ہیں ۔ ان کے جذبہ احتجاج کو ہر جمہوریت پسند شہری سلام کرتا ہے ۔ حق و انصاف کی لڑائی کو خاموشی کے ساتھ کامیاب بنانے میں ادیبوں کا رول اہم ہے ۔ جنگ آزادی کے دوران بھی اردو والوں نے اپنا حق ادا کیا تھا اب بھی اردو والوں نے اپنا رول ادا کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں کی ہے ۔ بی جے پی حکومت نے ملک میں ایک ایسے معاشرہ کو وجود میں لایا ہے جس میں ماتم کے لیے دو ہاتھ اور ایک سینہ کافی نہیں رہا ۔ رونے کے لیے دو آنکھیں بھی بہت کم پڑ گئی ہیں لیکن یونیورسٹیوں کے طلباء نے اپنے غم و غصہ کے ذریعہ حکمرانوں کو رلانے کا تہیہ کرلیا ہے تو بلا شبہ یہ احتجاج شدت اختیار کرجائے گا اور حکومت کو قانون واپس لینے کے لیے مجبور کردیا جائے گا ۔ یونیورسٹیوں سے اٹھنے والی یہ صدائیں اس حکومت کے ناپاک ارادوں کو ناکام بنادیں گی ۔ مودی حکومت کی پالیسیوں اور سیاسی غلاظت و نجاست سے بچ کر رہنا بھی یونیورسٹی طلباء اور دیگر ابنائے وطن کے لیے بھی ضروری ہے ۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کے اندر پولیس ظلم اور بربریت نے ساری دنیا کے سامنے مودی حکومت کے اصل چہرے کو آشکار کردیا ہے ۔ اس تشدد اور پولیس ظلم کے خلاف ہندوستانی فلمی صنعت سے لے کر سماجی اداروں ، مذہبی تنظیموں ، طلباء یونینوں اور عوامی سطح کے احتجاج کے بعد حکومت کے لیے قانون رد کرنے کے سوا کوئی راستہ نہیں ہوگا ۔ اس قانون کے خلاف فلمی صنعت کے کئی اداکاروں نے احتجاج کیا ہے ۔ اداکار محمد ذیشان ایوب ، پرنیتی چوپڑہ ، سدھارتھ ملہوترہ ، بزرگ شاعر اور نغمہ نگار جاوید اختر ، فلم ساز وی وشال بھردواج اور انوراگ کیشپ نے بھی اس قانون کی مخالفت کی ۔ عالیہ بھٹ ، ورون دھون ، سوناکشی سنہا ، ہما قریشی ، ڈائرکٹر بنسل مہتا نے بھی صدائے احتجاج بلند کیا ہے ۔ اس طرح کے احتجاج میں شدت پیدا کرتے ہوئے حکومت کو بل واپس لینے کے لیے مجبور کیا جاسکتا ہے ۔ لیکن یہ حکومت اس قدر بے شرم ہے کہ اس پر کوئی بات اثر نہیں کررہی ہے ۔ ملک کئی مسائل میں محصور ہوچکا ہے ۔ ایک قدم آگے بڑھاتے ہیں تو چار قدم پیچھے ہٹ رہے ہیں ۔ یہ حکومت معیشت کو بہتر دکھانے کے لیے ایک اینٹ رکھتی ہے تو اینٹیں گرجاتی ہیں ۔ اک جگہ پر آگ بجھانے کی کوشش کرتی ہے تو دو جگہ مزید بھڑک اٹھتی ہے ۔ این آر سی کے خلاف آسام تریپورہ جل رہا تھا اب سارے ملک میں احتجاج کے شعلہ بلند ہورہے ہیں ۔۔