شہریوں کے ڈیٹا کا سرقہ !

   

جنوبی ہند کی دو تلگو ریاستوں تلنگانہ اور آندھرا پردیش کی حکمراں پارٹیوں کے درمیان 3.70 کروڑ رائے دہندوں کے ڈیٹا کے سرقہ کو لے کر رسہ کشی چل رہی ہے ۔ عین عام انتخابات سے قبل آندھرا پردیش کی حکمراں پارٹی تلگو دیشم کو ان الزامات کا سامنا ہے کہ اس نے حیدرآباد کی آئی ٹی گرڈس ( انڈیا ) پرائیویٹ لمیٹیڈ کے ذریعہ ریاستی تلنگانہ حکومت سے اس ریاست کے رائے دہندوں کی تفصیلات حاصل کرلی ہیں ۔ ایپ کے ذریعہ ان معلومات کا سرقہ غیر قانونی ہے یا غیر اخلاقی یہ ایک الگ بحث ہے لیکن سیاسی پارٹیوں نے ایک دوسرے کو ناکام بنانے کی غرض سے جو طریقہ کار اختیار کیا ہے وہ ایک صاف ستھری سیاست کے دائرہ میں نہیں آتا ۔ ویسے ان دنوں صاف ستھری سیاست کرنے والوں کا فقدان پایا جارہا ہے ۔ تلنگانہ حکومت نے الزام عائد کیا کہ تلگو دیشم نے ایپ کے ذریعہ ریاستی حکومت کے ڈیٹا کا سرقہ کرلیا ہے ۔ اس سلسلہ میں ایک کیس بھی درج کیا گیا ہے ۔

تلگو دیشم پر الزام ہے کہ اس نے فہرست رائے دہندگان سے ان تمام غیر تلگو دیشم رائے دہندوں کے نام حذف کرلیے ہیں تاکہ آندھرا پردیش کی اسمبلی اور لوک سبھا انتخابات میں پارٹی کے امکانات کو مزید قوی بنایا جائے ۔ یہ بظاہر ایک ڈیٹا کا سرقہ ہے لیکن تحقیق کا تقاضہ یہ ہے کہ کسی بھی قسم کے ڈیٹا سرقہ کا افشاء ہوتا ہے تو یہ معلوم کرنا ضروری ہے کہ آیا یہ ڈیٹا کسی فرد کا ذاتی مواد ہے یا نہیں ۔ ڈیٹا کا سرقہ نہ صرف ایک نازک معاملہ ہے بلکہ شہریوں کی تمام تفصیلات تک رسائی حاصل کرنے کی اجازت دینا بھی خطرناک بات ہے ۔ آدھار کے ذریعہ ڈیموگرافک ڈیٹا کے ذریعہ شہریوں کی تفصیلات حاصل کی جارہی ہیں اس سے فہرست رائے دہندگان سے ناموں کو حذف بھی کرنے کا الزام ہے ۔ اگر واقعی ایسا ہورہا ہے تو یہ مستوجب سزا جانچ ہے ۔ گذشتہ ہفتہ ہی سائبر آباد پولیس نے ایک کمپنی کے خلاف کیس درج کرلیا جس کا الزام ہے کہ تلگو دیشم نے شہریوں کی تفصیلات فراہم کی ہیں جس کا مقصد رائے دہندوں کے ناموں کی جانچ کی جاکر جو رائے دہندہ مخالف تلگو دیشم ہو اس کا نام فہرست رائے دہندگان سے حذف کردیا جائے ۔ ابتدائی تحقیق سے جس بات کا شبہ ظاہر کیا گیا ہے وہ یہی ہے کہ آئی ٹی گرڈس کمپنی نے شہریوں کی تمام تفصیلات حاصل کرلی اور رائے دہندوں کی پارٹی حمایت کی اساس پر نشاندہی کی گئی ہے ۔ کسی خاص پارٹی کی حمایت کرنے والے رائے دہندوں کو اس فہرست میں شامل رکھا گیا ۔ جئے ٹی ڈی پی ایپ کے ذریعہ آدھار ڈیٹا استعمال کرتے ہوئے تمام معلومات حاصل کی گئی ہیں ۔ ڈیٹا کا غلط استعمال اور آندھرا پردیش کی فہرست رائے دہندگان سے ناموں کو حذف کرنے کا عمل اس وقت سیاسی موضوع بنا ہوا ہے ۔ پولیس نے اپنے ذمہ داروں سے تحقیقاتی عمل جاری رکھا لیکن یہ مسئلہ جب دو تلگو ریاستوں کی حکمران پارٹیوں کے درمیان سیاسی جھگڑا کا روپ اختیار کرلیا تو اس سے کئی سیاسی بدنیتی پر مبنی عوامل کا تسلسل سامنے آنے لگا ۔ آدھار کے ذریعہ شہریوں کی تمام تفصیلات حاصل کرلیے جانے کے بعد یہی اندیشہ ظاہر کیا جارہا تھا کہ اس ڈیٹا کو محفوظ رکھنے میں متعلقہ ادارے ناکام ہوں گے اور یہ شبہ حقیقت میں تبدیل ہوگیا ہے ۔

اب آدھار کے ذریعہ شہریوں کے ناموں اور ان کی تفصیلات غیر محفوظ ہوگئے ہیں ۔ اس لیے اب شہریوں کو ہی چوکس ہونے کی ضرورت ہے کہ وہ اپنے ذاتی ڈیٹا کا تحفظ کس طرح کریں ۔ اس کے ساتھ ساتھ الیکشن کمیشن کو بھی حرکت میں آنے کی ضرورت ہے کہ فہرست رائے دہندگان سے اگر کوئی بھی پارٹی چھیڑ چھاڑ کرتی ہے تو پھر ملک میں انتخابات کے صاف و شفاف انعقاد کا عمل بھی مشکوک ہوجائے گا ۔ اس ڈیٹا سرقہ کا معاملہ سامنے آیا ہے تو حکومت اور متعلقہ ذمہ دار اداروں کو اس بارے میں مکمل جانچ کرتے ہوئے شہریوں کے ڈیٹا کو محفوظ کرنے کی کوشش کی جانی چاہئے ۔۔