شیخِ جیلاں رحمہ اللہ کی ہے تعلیمات میں آب حیات

   

انسانوں کی رشد و ہدایت کیلئے اللہ سبحانہ نے جو آخری دین انسانیت کو دیا ہے وہ پیغمبر آخر الزماں خاتم النبیین حضرت سیدنا محمدرسول اللہ ﷺ پر نازل کیا گیا ہے ‘چونکہ یہ دین ابدی و آخری دین ہے اور ساری انسانیت کیلئے یہ سرچشمہء ہدایت ہے‘ جس میں زندگی کے سارے شعبوں میں وحی الہٰی کا نورہے اس لئے اللہ سبحانہ نے اس دین متین میں وہ لچک رکھی ہےجو ہر زمان و مکان اور ہر قوم و قبیلہ کے حالات و کوائف کی مناسبت سے رہنمائی کافرض پورا کرسکتا ہے‘تغیر پذیر حالات میں انسانیت کو تنہا ئی و تاریکی میں نہیں چھوڑتا‘بلکہ قدم قدم پر ہاتھ تھامتا اور روشنی بہم پہنچاتاہے‘زندگی کے احوال تغیرات و انقلابات سےبھرپور ہیںجو اس نظام ِکائنات کا لازمی حصہ ہیں‘ زندگی کے نشیب و فراز میں انسانو ں کا اس سے واسطہ پڑتا رہتاہے‘اس سے نبردآزماہونے اور کامیابی کے ساتھ منزل مقصود تک رسائی حاصل کرنے کیلئے کتاب و سنت کی فطری و پاکیزہ تعلیمات آب حیات کا درجہ رکھتی ہیں‘سیدنا محمد رسول اللہ ﷺچونکہ خاتم النبیین ہیںاورجو پیغام ہدایت آپﷺ پرنازل کیا گیا ہے وہ ابدی ہے‘اس لئے آپﷺ کے دنیائے فانی سے منہ موڑ کر ابدالآباد ‘ حیات اخروی کے سفر پر روانہ ہوکر اپنے مالک و مولیٰ کے حضور شرف باریابی پالینے کے بعد عموماً انسانیت کی اور خصوصاً ملت مسلمہ کی رہبری کیلئے اللہ سبحانہ نے ایک عظیم نظام بنایا ہے اس نظام کے سرکردہ وہ محبان خاص ہیںجو اللہ سبحانہ کے محبوب ترین بندے ہیںجن میں اہل بیت اطہار واصحاب ذوی الاحترام اور تابعین و تبع تابعین عظام رضی اللہ عنہم کے ساتھ اولیاءو صلحاء کاملین اور علماء واتقیاء دین متین رحمہم اللہ اجمعین شامل ہیں‘جو ہر دور میںاسلامی تعلیمات کے عملی آئینہ دار اور اس کے پیغام کی اشاعت کے علمبردار رہے ہیں ‘یہی وہ اخص الخواص بندے ہیں جو انسانیت کو درپیش مسائل و مشکلات کا ہمیشہ مداوا کرتے رہتے ہیں‘اس عظیم قافلہ روحانیت کے روح رواں ‘ولایت کے اعلیٰ مرتبہ پر فائزمحبوب کردگار شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ الباری ہیںجوجمال قرب الہی میں غوطہ زن‘ذکر الہی سےرطب اللسان‘ زہدوتقویٰ کےپیکر‘ علوم ومعارف کا سمندر ‘ اقلیم روحانیت کے تاجدار‘مقبولیت ومرجعیت کے عظیم شاہکارہیں جنہوں نے مردہ دلوں کی مسیحائی کا فرض پورا کیا ہے تعلیم و تعلُّم‘ تصحیح ِاعتقادات ‘فرقِ باطلہ کی تردید ‘ مذہب اہلسنت وجماعت کی حمایت و نصرت ‘غریبوں کی داد رسی ‘خلق خدا کے ساتھ شفقت ومحبت جیسے کئی ایک ان کی زندگانی کے عناوین ہیں‘جن پر قلم اٹھایا جائےتو دفتر کے دفتر ناکافی ہوں گے ‘کفر و شرک ‘ گمراہی وضلال ‘ فسق وفجور‘ بدعات و خرافات ‘ غیراسلامی رسوم و رواجات کی بیخ کنی آپ کی زندگی کااہم ترین ہدف تھا ‘دنیا کا حسن ‘ زندگی کی رعنائیاںآپ کی نگاہوں میںہیچ تھیں‘مال و دولت ‘جاہ وحشمت‘وزراء و سلاطین کبھی ان کو اپنی جانب متوجہ نہیں کرسکے‘ قلم اٹھایا تو علم کے دریا بہادیئے‘محققین نے ان کے سالانہ خطبات کی گنتی ایک سو چھپن( ۱۵۶)بیان کی ہے ‘ زندگی تمام کے خطبات کا شمار کیا جائے تو وہ ہزاروں صفحات پرمشتمل ہونگے‘ جن میں علم و عرفان کے ایسے آبدار موتی ہیں جوحقیقی معنی میں علمی و روحانی تعلق جوڑنے والوں کی دستار فضیلت میں چار چاند لگاتے ہیں۔

شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ کی تعلیمات میں جابجا توحید باری تعالیٰ کی تلقین ملتی ہے ‘فرماتے ہیں’’ ساری مخلوق عاجز ہے نہ کوئی تجھ کو نفع پہنچا سکتا ہے نہ نقصان ‘ بس حق تعالیٰ اس کو ان (مخلوق) کے ہاتھو ں کرادیتا ہے ‘اسی کا فعل تیرے اندر اور مخلوق کے اندر تصرف فرماتا ہے جو کچھ تیرے لئے مفید ہے یا مضر ہے ا س کے متعلق اللہ کے علم میں قلم چل چکا ہے اس کے خلاف نہیں ہوسکتا ‘جو موحد اور نیکوکار ہیںوہ باقی مخلوق پر اللہ کی حجت ہیں ‘‘(تاریخ دعوت و عزیمت بحوالہ : رموزالغیب ‘مقالہ ۶۲/۱۵۷ )اور فرماتے ہیں ’’ دنیا اس کی خدمت کرتی ہے جو حق تعالیٰ کے دروازہ پر کھڑا ہوتا ہے اور جو دنیا کے دروازہ پر کھڑا ہوا ہوتا ہے اس کو (دنیا)ذلیل کرتی ہے (تاریخ دعوت و عزیمت بحوالہ : فیوض یزدانی ‘ مجلس ۲۱ / ۱۴۵)۔ آپ کی تعلیمات ‘مخلوقات ‘ دینار و دراہم ‘مال و جائیداد ‘ کاروبار و تجارت پر اعتماد کو تربیت سے بتدریج ختم کرتی ہیں‘ اللہ سبحانہ و تعالیٰ پر توکل و اعتماد کودلوں میں راسخ کرتی ہیں‘جس سے رب تبارک و تعالیٰ کی محبت قلوب میں جاگزیںہوجاتی ہے جومقام احسان پر رہتے ہوئے دل وجان سے شریعت کے احکام کی تابعداری کا خوگر بناتی ہیں‘ایمان کے کمال کیلئے عارفین کے ہاں ’’مقام احسان‘‘ کی بڑی اہمیت ہے‘جوباحسن الوجوہ ایمانی و اسلامی تقاضوں کی تکمیل کے ساتھ ہو‘ اللہ سبحانہ نے النحل آیت ۹۰ میں ہر معاملہ میں انصاف ‘ احسان اور رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا ہے ‘معاشرہ کو صحتمند بنیادوں پر قائم کرنا مقصود ہوتوعدل و احسان ناگزیر ہے ‘عدل و احسان کے ساتھ ایک اور اہم بنیاد رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کی ہے ‘مقام احسان اس بات کا متقاضی ہے کہ بندوں کے حقوق کی ادائیگی میں بھی عدل و احسان ہو‘ عدل یہ ہے کہ انصاف کے تقاضوں کو پورا کیا جائے اور احسان یہ ہے کہ بندوں کے حقوق ادا کرنے میں بھی احسان کو ملحوظ رکھا جائے‘صلہ رحمی کی اسلام میں بڑی اہمیت ہے ‘منازل سلوک طئے کرنے کی تمنا ہوتوصلہ رحمی کے تقاضوں کو بھی حد درجہ خوف الہٰی سے لرزاں وترساں کمال درجہ کا سلوک کیا جائے یہ بھی احسان ہے ‘احسان کہتے ہیں ‘جو واجب حق ہےاس کو زیادہ سے زیادہ کرکے دیا جائےاور ا س کے دینے میں عاجزی کا دامن تھامے ہوئے صاحب حق کے اعزاز و اکرام ‘محبت و احترام کو ملحوظ خاطر رکھا جائے ‘ایسا کوئی برتائو یا رویہ اختیار نہ کیا جائے جس سے اس(صاحب حق) کی کوئی دل شکنی ہو۔ جن کے حقوق ہم پر واجب ہیں ان سے کوئی کوتاہی ہوجائے تو عفوودرگزر سے کام لیا جائے ’’اور چاہئے کہ یہ لوگ معاف کردیں اور درگزرسے کام لیں ‘کیا تم اس بات کو پسند نہیں کرتے کہ اللہ سبحانہ تمہاری بخشش فرمادے ‘اللہ سبحانہ غفور و رحیم ہے‘‘(النور: ۲۲)

اللہ سبحانہ کے حقوق کی ادائیگی میں بھی ‘احسان یعنی اللہ سبحانہ کی بندگی اس احساس و تصور کے ساتھ بجالائی جائےکہ میں اللہ کو دیکھ رہا ہوں‘ عارفین نے اس کو مراقبہ کا اعلیٰ درجہ بتایا ہےبعضوں نے گوکہ اسے ’’مشاہدہ‘‘ سے تعبیر کیا ہے ‘یہ کیفیت اگر پیدا نہ ہوسکے تو اس بات کا استحضارضرور رہےکہ وہ (اللہ)مجھے دیکھ رہا ہے یہ مراقبہ کا کمتر درجہ ہےبعضو ں نے اسی کو مراقبہ کہا ہے الغرض مراقبہ اعلیٰ درجہ پر ہویا ادنیٰ یعنی کمتر۔الغرض یہ ’’احسان‘‘ زندگی کے سارے شعبوں میں مطلوب ہے ‘عبادات‘ معاملات ‘ معاشرت ‘ سیاست اور اخلاق ان میں سے ہرشعبہ کیفیات احسان سے مملوہو‘یہی شریعت کی روح ہے۔مقام احسان کو آپ کی اور صوفیاء کی تعلیمات میں بہت اُجاگر کیا گیا ہے چونکہ احسانی کیفیات عجزوانکساری ‘فروتنی وخاکساری پیدا کرتی ہیں‘یہ عاجزی خالق کے حقوق کی ادائیگی میں بھی مطلوب ہے اور مخلوق کے حقوق اد ا کرنے میں بھی ‘ احسان کی کیفیت انسان میں پیدا ہوجائے تو اس کی نظرصرف اور صرف اللہ پر ہوتی ہے ‘غیر اللہ کی طرف اس کی نسبت کرنے اور مخلوق سے الجھنے کی نوبت ہی نہیں آتی کیونکہ وہ متصرف حقیقی اللہ سبحانہ تعالیٰ کی ذات کو تسلیم کرتا ہے ‘ دل کی دنیا کواللہ سبحانہ کی محبت سے آباد رکھتا ہے ‘لیکن یہ محبت اس کو مخلوق کی لازمی و واجبی محبت یعنی بشاشت قلبی کے ساتھ مخلوق کے حقوق احسان کے ساتھ ادا کرنے اور ان کے ساتھ حسن سلوک سے بے نیاز نہیں کرتی ‘مخلوقات کی محبت خالق کی محبت کے تابع ہویہ اسلامی تعلیمات کا مقصود ہے ‘ حدیث پاک میں وارد ہے مخلوق گویا اللہ سبحانہ کا ایک طرح سے کنبہ و قبیلہ ہے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو وہ بندے بہت زیادہ محبوب ہیں جو اس کی عیال (مخلوق) کے ساتھ احسان کا برتائو کرتے ہیں‘اور وہ یہ سارے کام اللہ سبحانہ کی رضا و خوشنودی کیلئے انجام دیتے ہیں‘ریاء دکھاوا ان کوچھوکر بھی نہیں جاتا ‘ ایسے لوگ ہی اللہ والے کہلاتے ہیں‘انسان کی زندگی کا مقصد اولین یہی ہے کہ اس کا مالک و مولیٰ اس سے راضی ہوجائے اس لئے ہر معاملہ میں وہ اللہ سبحانہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہتے ہیں اور یہ دعا اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ الرِّضَاءْ بَعْدَالْقَضَاءْ۔ ہمیشہ ان کے ورد زباں رہتی ہے ‘ فرماتے ہیں ’’لوگو !اللہ کے ہوجائو (یعنی اللہ کے بندے بنو)جیسے نیک بندے اس کے ہوگئے تھے ‘ (تو پھر ) وہ تمہارا ہوجائے گا ‘ جیسے ان (اللہ والوں )کا ہوگیا تھا‘ اگر تم چاہتے ہوکہ حق تعالیٰ تمہارا ہوجائے تو ا س کی ا طاعت کرو‘اس کے لئے صبر کرواور سارے معاملات میں راضی بہ رضا رہو(الفتح الربانی ةمجلس اول )
الغرض آپ کی تعلیمات جو آبِ حیات کا درجہ رکھتی ہیں‘ اللہ سبحانہ کی محبت دلوں میں بساتی ہیں اور دنیا کے مقابل آخرت کی فکر تازہ کراتی ہیں‘مسلمان آج بھی آپ کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوکر اسلام کی روح کو زندہ کرسکتے ہیں ‘ ان تعلیمات کا عملی نمونہ بن کراپنی زندگی کو تابندہ اور گمراہ و بے دین انسانوں کی روحانی حیات و زندگی کا سامان کرسکتے ہیں اسی سے آخرت کی ٹھنڈی زندگی نصیب ہوسکتی ہے ‘جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مانگی ہے اور امت کویہ نعمت مانگنے کی تلقین کی ہے ۔اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ بَرْدَالْعَیْشِ بَعْدَ الْمَوْتِ ۔(آمین)
شیخِ جیلاںکی ہے تعلیمات میں آب حیات
رہرو راہ ہدی کے حق میں ہے‘ راہ نجات