شیشہ و تیشہ

   

تحجمل اظہرؔ
قافیہ پیمائی …!
شوقِ جنوں نے قافیہ پیمائی کرگئی
اِس لیت و لعل ہی میں یہ شام و سحر گئی
ایسے بھی شاعروں کی ہے بہتات آج کل
جو جانتے نہیں ہے کہاں سے بحر گئی
…………………………
شاہدؔ عدیلی
غزل (طنز و مزاح)
وہ اپنی جان کو خطرہ لگائے رکھتا ہے
اک اَدھ مری بھی اگر گھر میں گائے رکھتا ہے
کرے جو وعظ تو واعظ کو غور سے دیکھو
زنانہ سمت ہی گردن گھمائے رکھتا ہے
زبان رکھ کے بھی کرتا ہے بات اشاروں سے
ہمیشہ منہ میں وہ گُٹکھا دبائے رکھتا ہے
ہم اُس کے حق میں بہت اچھی رائے رکھتے ہیں
ہمارے حق میں وہ کچھ اور رائے رکھتا ہے
غرض ہے جس سے کِھلاتا ہے اُس کو بریانی
ہمارے آگے تو بس چائے وائے رکھتا ہے
سخن ور اصلی نہاتا نہیں حقیقت میں
تصورات میں خود کو نہائے رکھتا ہے
دُلہے سے ملتے ہی کھانے کی گیٹ پر شاہدؔ
ہر ایک ہی نظریں جمائے رکھتا ہے
…………………………
شب وصال
٭ سید عابد علی عابدؔصدارتی کرسی پر براجمان تھے ۔ شعراء اپنا اپنا کلام سناکر باری باری رخصت ہورہے تھے ، یکایک ایک خوش گو شاعرہ منور سلطانہ اسٹیج پر آئیں اور بلند آہنگ ترنم سے اپنا کلام سنانا شروع کیا۔ ہر شعر بلاکسی فرمائش کے بار بار پڑھا ۔ ایک مصرعہ گویا ان کے گلے میں اٹک گیا، مسلسل تکرار کرتے ہوئے صاحب صدر کو داد کے لئے متوجہ کرتی رہیں۔ مصرعہ تھا :
شب وصال مِرا ظرف آزما کے دیکھ
جب چوتھی پانچویں بار عابد صاحب کو متوجہ کرکے یہ مصرعہ پڑھا تو عابد صاحب نے بے بسی سے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا
یہ تاب یہ مجال یہ طاقت نہیں مجھے
ابن القمرین ۔ مکتھل
…………………………
ترکاری کا سالن
٭ ایک خاتون حیران و پریشان پولیس اسٹیشن پہنچ کر زار و قطار روتے ہوئے کہنے لگی ’’ انسپکٹر صاحب ! صبح بازار سے ٹماٹر لانے کیلئے میں نے اپنے بچے کو روانہ کیا تھا اب شام ہونے کو آئی وہ گھر واپس نہیں لوٹا مہربانی کرکے کچھ کیجئے ۔
’’ جس پر پولیس انسپکٹر نے اطمینان کے ساتھ کوئی بات نہیں محترمہ آپ دوسری ترکاری کا سالن بنالیجئے ‘‘۔
سید حفیظ الرحمن ۔ نظام آباد
…………………………
مشورہ
٭ ایک عورت ڈاکٹر سے اپنے شوہر کی شکایت کررہی تھی ۔ ’’ میں اپنے شوہر کے بارے میں تم سے ایک بات پوچھنا چاہتی ہوں ۔ ہماری شادی کو بیس سال ہوگئے ہیں ، میرا شوہر ایک مثالی شوہر تھا ، بے پناہ محبت کرنے والا لیکن جب سے آپ نے اس کا علاج کیا ہے ، اس کی شخصیت بدل کر رہ گئی ہے ۔ اب اس کا زیادہ تر وقت گھر سے باہر گزرتا ہے ، مجھ سے بھی صحیح بات نہیں کرتا ، نہ ہی کوئی تحفہ لاکر دیتا ہے ۔ بلکہ یہ کہنا درست ہوگا کہ وہ میری شکل بھی دیکھنا پسند نہیں کرتا اور یہ سب کچھ تمہارے علاج کی وجہ سے ہوا ہے ‘‘۔ ’’ میں نے اس کاکوئی علاج نہیں کیا … میں نے تو اُسے صرف نظر ٹسٹ کروانے اور چشمہ لگوانے کا مشورہ دیا تھا‘‘۔ ڈاکٹر نے وضاحت کرتے ہوئے کہا۔
حذیفہ بن عمر العیدروس ۔ ممتاز باغ
…………………………
زُلفِ مسلسل…!!
٭ ایک مرتبہ کوئی دل جلا شاعرغم غلط کرنے کے لئے کوٹھے پہ گیا۔
رقّاصہ کا قد بہت لمبا تھا جسے دیکھ کر شاعر نے فی البدیہہ کہا:
طولِ شبِ فرقت سے بھی دو ہاتھ بڑی ہے
رقّاصہ نے اپنے قد کا مذاق اُڑتے سنا تو بہت غصّے سے دل جلے کی جانب دیکھا۔ وہ سٹپٹا گیا اور فوراً بولا:
آپ نے مصرعہ اولیٰ سناہی نہیں۔
وہ زلف مسلسل جو تیرے رخ پہ پڑی ہے
طول شبِ فرقت سے بھی دو ہاتھ بڑی ہے
عباس متقی ۔ عیدی بازار
…………………………