شیشہ و تیشہ

   

علامہ اسرار جامعیؔ
غازی…!
دنیا یہ جانتی ہے کیا شان ہے ہماری
بعد ازاں جہاد جیسے میداں سے جائیں غازی
پہلے نمازیوں کی تھی فوج مسجدوں میں
ماہِ صیام رخصت ، رخصت ہوئے نمازی
……………………………
مخلصؔ حیدرآبادی
فیضانِ عید!
شعورِ کلمۂ طیّب کو جگمگانا ہے
جہانِ کفر کی ہر تیرگی مٹانا ہے
بچے گناہ سے جس دن، وہی ہے عید کا دن
یہ یاد رکھیئے ، جو فیضانِ عید پانا ہے
…………………………
شیخ احمد ضیاءؔ
عید آئی ہے
عید کا جشن مناؤ کہ عید آئی ہے
غم کے ماروں کو ہنساؤکہ عید آئی ہے
ہاتھ میں ہاتھ ملانا تھا دکھاوا بھائی
دل سے اب دل کو ملاؤ کہ عید آئی ہے
دودھ میں پانی ملانے کی روایت ہے قدیم
دودھ پانی میں ملاؤ کہ عید آئی ہے
ہے ابھی تک بھی سلامی کا چلن گاؤں میں
تم بھی سسرال کو ہو آؤ کہ عید آئی ہے
اک برس بیت گیا تم کو نہائے شاید
آج جی بھر کے نہاؤ کہ عید آئی ہے
ایک روزہ رکھا افطار کئے پورے تیس
اُس کی گلپوشی کراؤ کہ عید آئی ہے
میں نے بیگم سے کہا آج بھی غصہ کیسا
شیرخورمہ ہی پلاؤ کہ عید آئی ہے
اُس کی تعریف کرو جتنی بھی کم ہی ہے ضیاءؔ
اک غزل اُس کو سناؤ کہ عید آئی ہے
………………………
امی جان سے خالہ جان…!
٭ ایک بیس بائیس سالہ نوجوان سوپر مارکیٹ میں خریداری کیلئے داخل ہوا، کچھ خریداری کر ہی رہا تھا کہ اسے محسوس ہوا کہ کوئی خاتون اسکا تعاقب کر رہی ہے، مگر اس نے اسے اپنا شک سمجھتے ہوئے نظر انداز کیا اور خریداری میں مصروف ہو گیا،لیکن وہ عورت مستقل اسکا پیچھا کر رہی تھی، اب کی بار اس نوجوان سے رہا نہ گیا، وہ یک لخت خاتون کی طرف مڑا اور پوچھا، ماں جی خیریت ہے…؟
عورت: بیٹا آپ کی شکل میرے مرحوم بیٹے سے بہت زیادہ ملتی جلتی ہے، میں نہ چاہتے ہوئے بھی آپ کو اپنا بیٹا سمجھتے ہوئے آپ کے پیچھے چل پڑی، اور ابھی آپ نے مجھے امی جان کہا تو میرے دل کے جذبات فرطِ محبت و خوشی سے لائق بیان نہیں،عورت نے یہ کہا اور اسکی آنکھوں سے آنسو بہنا شروع ہو گئے۔
نوجوان: کوئی بات نہیں ماں جی آپ مجھے اپنا بیٹا ہی سمجھیں۔
عورت: بیٹا کیا ایک دفعہ پھر آپ مجھے ماں جی کہو گے؟
نوجوان نے اونچی آواز سے کہا جی ماں جی…لیکن خاتون نے گویا نہ سنا ہو، نوجوان نے پھر بلند آواز سے کہا جی ماں جی… عورت نے سنا اور نوجوان کے دونوں ہاتھ پکڑ کے چومے، اپنی آنکھوں سے لگائے اور روتے ہوئے وہاں سے رخصت ہو گئی۔
نوجوان اس منظر کو دیکھ کر اپنے آپ پر قابو نہ رکھ سکا اور بے اختیار اسکی آنکھوں سے آنسو نکل پڑے، اور وہ اپنی خریداری پوری کیے بغیر واپس کاؤنٹر پر چل دیا، کاؤنٹر پر پہنچا تو کیشیئر نے دس ہزار کا بل تھما دیا۔
نوجوان نے پوچھا دس ہزار کیسے؟
کیشیئر : آٹھ سو کا بل آپ کا ہے اور نو ہزار دو سو آپکی والدہ کا، جنہیں آپ ابھی امی جان ! امی جان !کہہ رہے تھے…!
وہ دن اور آج کا دن،نوجوان اپنی حقیقی امی کو بھی خالہ جان کہتا ہے…!
جسیم الدین ۔ جہاں نما
…………………………
اب بتاؤ …!!
٭ دو دوست آپس میں باتیں کررہے تھے ایک نے کہا ، کل رات میری بیوی نے خوب ہنگامہ کیا ، پوری رات لڑتی جھگڑتی رہی ۔
کس بات پر … دوسرے نے پوچھا ؟
میں رات کو نشے میں دُھت گھر پہنچا ، میری بیوی بولی تمہارے لئے ایک اچھی خبر ہے اور دوسری بُری ! پھر بولی میں تم کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے چھوڑکر جارہی ہوں !
یہ سُن کر میں نے برجستہ کہا ’’اب بتاؤ بُری خبر کیا ہے …!!‘‘
ایم اے وحید رومانی ۔ نظام آباد
…………………………