شیوسینا کا نیا فتنہ

   

جب بھی دنیا میں نیا فتنہ کوئی اُٹھتا ہے
دُور سے لوگ بتادیتے ہیں تربت میری
شیوسینا کا نیا فتنہ
فرقہ پرست طاقتیں ملک میں انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کیلئے کسی بھی حد تک جانے سے گریز نہیں کر رہی ہیں۔ جہاں برسر اقتدار جماعتیں اپنے کام کاج اور فلاحی اسکیمات کی بنیاد پر عوام سے رجوع ہونے کے موقف میں نہیں ہیں وہیں ان کی حلیف جماعتیں بھی اپنے امیدواروں کی کامیابیوں کو یقینی بنانے کیلئے زہرافشانی کرنے اور متعصب ذہنیت کا مظاہرہ کرنے میں کسی سے پیچھے رہنے کو تیار نہیں ہیں۔ ایسے وقت میں جبکہ ملک میں لوک سبھا انتخابات کے چار مراحل پورے ہوچکے ہیں اور مزید تین مراحل کیلئے انتخابی مہم پوری شدت پر ہے ایسے میں شیوسینا نے ایک نیا شوشہ چھوڑا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ دہشت گردانہ حملوں کی روک تھام کیلئے ضرو ری ہے کہ ملک میں برقعہ پر امتناع عائد کیا جانا چاہئے ۔ جس وقت سے نریندر مودی حکومت نے گذشتہ انتخابات کے بعد اقتدار سنبھالا تھا اسی وقت سے ملک میں فرقہ پرست اور فاشسٹ طاقتیں بے لگام ہوگئی تھیں ۔ وہ من مانی بیانات جاری کرنے میں ایک دوسرے پر سبقت لیجا رہی ہیں۔ ہجومی تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوگیا ہے ۔ گائے کے گوشت کے نام پر کئی افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ہے ۔ اقلیتوں کو دلتوں کو نشانہ بنانے کے واقعات میں بے تحاشہ اضافہ ہوگیا ہے اور ایسے لوگ پارلیمنٹ تک پہونچ گئے اور وزارتیں تک حاصل کرچکے ہیں جنہیں ملک کے مفادات اور عوام کی بہتری سے زیادہ فرقہ پرستانہ ذہنیت سے زیادہ لگاو ہے ۔ ان قائدین کے بیانات ملک میں سماجی ہم آہنگی کو فروغ دینے کی بجائے فرقہ وارانہ ماحول کو پراگندہ کرنے میں زیادہ اہم رول ادا کر رہے ہیں ۔ حد تو یہ بھی ہوگئی کہ دہشت گردی کے مقدمہ کا سامنا کرنے والی سادھوی پرگیہ ٹھاکر کو برسر اقتدار بی جے پی نے بھوپال حلقہ سے اپنی امیدوار تک نامزد کردیا ہے ۔ سری لنکا میں ایسٹر کے موقع پر ہوئے بم حملوں کے بعد اب شیوسینا نے ملک کے ماحول کو پراگندہ کرنے کی کوشش کی ہے اور برقعہ پر امتناع عائد کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے سماج میں بے چینی پیدا کردی ہے ۔ شیوسینا کا یہ بیان یقینی طور پر انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کے زمرہ ہی میں آتا ہے ۔
ہندوستان ایک پرامن ملک ہے اور یہاں مختلف مذاہب کے ماننے والے ایک دوسرے کے ساتھ پرسکون انداز میں زندگی گذارتے ہیں لیکن فرقہ پرست طاقتیں ایسے ماحول کو پسند نہیں کر رہی ہیں۔ وہ سماج میں نراج اور بے چینی اور بدامنی کو ہوا دینا چاہتی ہیں ۔ وہ ملک کے دو بڑے فرقوں میں نفرت کی دیوار کو مزید مستحکم کرنا چاہتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وقفہ وقفہ سے ایسے نفرت انگیز بیانات جاری کئے جاتے ہیں ۔ برقعہ پر امتناع کا شیوسینا کا مطالبہ انتہائی مضحکہ خیز اور احمقانہ ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ شیوسینا اور اس کی ہم قبیل جماعتوں کی متعصب اور فرقہ وارانہ ذہنیت کی عکاسی بھی کرتا ہے ۔شیوسینا کا کہنا ہے کہ برقعہ پر امتناع کے ذریعہ دہشت گردانہ واقعات پر قابو کیا جاسکتا ہے ۔ تاہم پارٹی کو یہ جواب دینے کی ضرورت ہے کہ کیا گاندھی جی کو قتل کرنے والا کوئی برقعہ پہن کر آیاتھا ‘ کیا اندرا گاندھی پر گولیاں چلانے والوں نے برقعہ پہنا تھا یا پھر راجیو گاندھی کو نشانہ بنانے والا بم دھماکہ کسی برقعہ پوش نے کیا تھا ؟ ۔ کیا سمجھوتہ ایکسپریس میں دھماکہ کرنے والوں نے برقعہ پہنا تھا یا پھر مکہ مسجد یا درگاہ شریف اجمیر میں دھماکہ کرنے والے ملزمین نے برقعے پہنے تھے ؟ ۔ ان تمام دہشت گردانہ حملوں کے مرتکبین کا برقعہ سے کوئی دور دور کا بھی تعلق نہیں رہا ہے بلکہ ان میںاکثریت بھگوا لباس پہننے والوںکی رہی ہے ۔ تو کیا یہ مطالبہ کیا جاسکتا ہے کہ بھگوا رنگ کے لباس پر بھی امتناع عائد کردیا جائے ؟ ۔ ایسا مطالبہ بھی احمقانہ ہی ہوگا ۔
آثار و قرائن سے اندازہ ہونے لگا ہے کہ بی جے پی کیلئے انتخابات میں مشکلات بڑھتی جارہی ہیں۔ جن مراحل میں رائے دہی ہونی ہے وہ ہندی ریاستوں کی نشستیں ہیں۔ ان علاقوں میں فرقہ وارانہ ذہنیت کو مزید مستحکم کرنے اور سماج میں نفرت اور نفاق کو ہوا دینے کے مقصد سے اس طرح کی بیان بازیاں کی جا رہی ہیں۔ ان کا مقصد سیاسی فائدہ حاصل کرنا ہی ہے ۔ محض اقتدار حاصل کرنے کیلئے سماج کا شیرازہ بکھیرنے کی کوششوں سے بھی گریز نہیں کیا جا رہا ہے ۔ شیوسینا ہو یا اس کی ہم قبیل دوسری جماعتیں ہوں انہیں اپنے ادنی سے سیاسی مفادات کی فکر کرنے کی بجائے ملک کے مفادات کو ‘ ملک کے امن و امان اور استحکام کو ترجیح دینا چاہئے ۔ ملک کی ترقی کو مقدم رکھتے ہوئے سیاسی حکمت عملی تیار کی جانی چاہئے ۔