صدرجمہوریہ کا خطاب

   

دیو اِستبداد جمہوری قبا میں پائے کوب
تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری
صدرجمہوریہ کا خطاب
ہندوستان کے 70 ویں یوم جمہوریہ کے موقع پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے صدرجمہوریہ رامناتھ کووند نے ملک کے عوام سے اپیل کی کہ آنے والے مہینوں میں 17 ویں لوک سبھا کیلئے انتخابات ہونے جارہے ہیں جو اپنے ووٹ کے استعمال کے ذریعہ ملک کی ترقی کی سمت کا تعین کریں۔ انتخابات بلاشبہ صرف ایک سیاسی عمل نہیں ہے بلکہ یہ سارے ملک کے عوام کی اجتماعی ذمہ داری ہیکہ وہ ہماری جمہوریت کے نظریات اور احکام کی بنیادوں کو مضبوط کریں۔ صدرجمہوریہ کا یہ حب الوطنی کے جذبہ سے سرشار قومی خطاب قابل تحسین ہے۔ انہوں نے عوام کے اندر فوجی جذبہ اور جمہوری اقدار کی روشنی پیدا کی ہے۔ صدرجمہوریہ نے اپنے خطاب میں یہ واضح کیا ہیکہ یہ ملک ہم میں سے ہر ایک کا ہے۔ ہر طبقہ ہر گروپ، ہر مذہب اور ہر شناخت، ہر شہری اور ہر فرد واحد کا ملک ہے۔ صدرجمہوریہ کی باتوں میں صدفیصد سچائی ہے لیکن ان کے دورصدارت میں ملک کی سیاسی بی جے پی حکمرانی کی پالیسیاں صدرجمہوریہ کے خیالات کے برعکس دکھائی دیتی ہیں۔ صدرجمہوریہ کہتے ہیں کہ ملک کی جمہوریت، کثیرالوجود معاشرہ اور ترقی کی راہیں ہی ہر ایک کیلئے کشادہ ہیں۔ اس کے برعکس دیکھا جائے تو حکمراں طبقہ کا موقف اور رویہ اس کی کارکردگی اور اب تک کی ہونے والی خرابیوں نے ملک کی یکجہتی، جمہوریت دستوری اداروں کو تباہ کردیا ہے۔ نفرت کا ماحول گرم دیکھا گیا۔ صدرجمہوریہ کہتے ہیں کہ ملک کی کثرت میں وحدت میں جمہوریت کی مثال ہے لیکن بی جے پی حکومت میں کثیرالوجود معاشرہ میں پھوٹ ڈالنے کی سازشیں تیزی سے انجام دی جارہی ہیں۔ ہمارے جمہوری نظریہ کے ذریعہ ہی عبوری طریقوں سے جمہوری مقاصد کو حاصل کیا جاسکتا ہے۔ عوام کی بہبود کیلئے وقت ہونے والی حکومتوں کی کمی کی وجہ سے جمہوری اقدار اور اصول کا فقدان پیدا ہوگیا ہے۔ آنے والے لوک سبھا انتخابات میں ہندوستانی عوام کوا پنے ملک کی درست سمت کا تعین کرنے کیلئے ووٹ کی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے ایک کارکرد حکومت لانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ سال 2019ء جمہوریت کیلئے کرو یا مرو ثابت ہوگا۔ اس جمہوریت کے تحفظ کیلئے عوام کا شعوری طور پر مضبوط ہونا ضروری ہے۔ عوام کو اپنے لئے ایسے قائدین کا انتخاب کرنا ہوگا جو ان کے مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے ملک کی سلامتی و ترقی کی فکر صحیح پر عمل کریں۔ ایسے لیڈروں کا انتخاب کیا جائے جو عوام کی شکایات کی سماعت کے ساتھ ان کے بھروسہ کو مضبوط بنانے والا کام کریں اور اپنے وعدوں کو من و عن پورا کر کے دکھائیں۔ ہندوستان میں اس حقیقت کا دور دور تک پتہ نہیں ہے۔ ایک اچھی حکومت اور پاکیزہ سماج بنانے کی کوشش کرنے کے بجائے موجودہ حکومت نے عوام کو پھوٹ کا شکار بنایا۔ ہندوستان کو اپنی جمہوریت پر فخر ہے اور اس ملک نے ہمیشہ عوام کو ایک دوسرے کے قریب لانے کا کام ہے لیکن اس پر مسلط ہونے والے سیاستدانوں نے ہی عوام کو پھوٹ کا شکار بنا کر ترقی کی راہوں کو مسدود کرنے کے کام انجام دیئے ہیں۔ مرکز کی مودی حکومت کی من مانی کو دیکھ کر ہی ملک کی اپوزیشن پارٹیوں نے اپنا عظیم اتحاد بنایا ہے۔ اس غیرمعمولی اتحاد نے مودی اور ان کی حکومت کو شکست دینے کا عہد کیا ہے۔ یہ اتحاد ایک ایسے وقت کیا گیا اور اس تناظر میں کیا گیا کہ حکومت شہریوں کے تحفظ اور ان کے مفادات کا تحفظ کرنے میں بری طرح ناکام رہی ہے۔ کمزوروں پر حملے، ہجومی تشدد کے ذریعہ بے بس انسانوں کو ہلاک کردینے اور غریبوں کی روٹی روزی چھین کر چھوٹے تاجروں کو ان کے روزگار سے محروم کرکے انہیں بے یارومددگار چھوڑنے والی اس حکومت کے خلاف ووٹ دینے کا سال 2019ء ایک نئی تاریخ رقم کرے گا۔ صدرجمہوریہ کے یوم جمہوریہ خطاب میں جن باتوں کا تذکرہ ہوا ہے اس تناظر میں دیکھا جائے تو اس ملک کی موجودہ حکمراں طاقت صدرجمہوریہ کے ان قیادت میں کہیں بھی موزوں نظر نہیں آتی۔ اگر ہندوستانی عوام نے صدرجمہوریہ کے اس خطاب کو محسوس کرلیا ہے تو وہ آئندہ لوک سبھا انتخابات میں ایسی حکومت لانے کا فیصلہ کریں گے جو ان کے ملک کے مستقبل کے مثبت سمت کا تعین کرے گی۔
ملک کی معیشت تسلی بخش نہیں
نریندر مودی کی قیادت نے اس ملک کی معیشت کو استحکام بخشا ہے یا ناکامیوں کا فلڈ گیٹ کھول دیا ہے یہ ایسا سوال ہے جس پر عام آدمی جواب طلب کرنے کیلئے بے چین ہے مگر یہ حکومت اپنی چالاکیوں سے عوم کو معاشی خرابیوں سے بے خبر رکھ کر آنے والے لوک سبھا انتخابات میں دوبارہ اقتدار کی تیاری کررہی ہے۔ وزیراعظم مودی نے حال ہی میں بی جے پی کے بوتھ لیول ورکرس سے خطاب کرتے ہوئے ملک کی معیشت میں بہتری اور افراط زر میں کمی کا دعویٰ کیا تھا۔ گذشتہ چار ساڑھے چار سال کے دوران ملک نے کن کن حالات کا سامنا کیا ہے اور اس ملک کے عوام کو نوٹ بندی اور دیگر سرکاری فیصلوں کی وجہ سے پریشانی ہوتی ہے اس کا احساس کئے بغیر اگر یہ حکومت اپنی کارکردگی کو بہتر ثابت کرنے کی کوشش کی تو اسے لوک سبھا انتخابات میں عوام کا جواب حاصل کرنے کیلئے تیار رہنا ہوگا۔ آر بی آئی کے سابق گورنر رگھورام راجن نے سوئٹزرلینڈ میں ڈاوس مقام پر ورلڈ اکنامک فورم کے موقع پر ہندوستانی معیشت کے بارے میں جس تلخ سچائی کی جانب اشارہ کیا تھا اس کا حکومت اگر نوٹ لیتی ہے تو معیشت کو پہنچنے والے نقصانات سے بچنے کے اقدامات کرسکتی ہے مگر حکومت کو قطعی فکر نہیں ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری کو ایمانداری سے انجام دے اور عوام کو ایک مضبوط معیشت فراہم کرے۔ جی ایس ٹی کو مثبت قرار دینے والے رگھورام راجن نے نوٹ بندی کے فیصلہ کو شدید دھکہ قرار دیا۔ اس ملک کی معیشت کو مضبوط بنانے کیلئے مستقبل کی معیشت کو قائم کرنے والی اسکیموں کو لانا ضروری ہے۔ عوام کی آمدنی کے نت نئے مسائل کی راہ ہموار کرنے کی ضرورت ہے۔ ہندوستانی معیشت کے حال اور مستقبل کے تعلق سے ماہرین اقتصادیات کی جو کچھ رپورٹس آرہی ہیں وہ تشویشناک ہیں۔ اب عالمی مالیاتی ادارے بھی ہندوستانی معیشت کی بہتری کی شہادت دینے سے گریز کرنے لگے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہیکہ ملک کی معیشت تسلی بخش نہیں ہے۔