صوفی سے سلفی تک جذبہ کشمیرت خطرے میں ۔

,

   

نئی دہلی۔بی ایس ایف کے ایک سینئر افیسر نے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ جموں اور کشمیر ایک شدت پسندی کے راستے پر گامزن ہے جہاں صوفی ازم کو کچل دیاجارہا ہے اورکشمیر میں شدت پسند اسلام کا خطرہ منڈلارہا ہے جس میں کسی دوسرے مذہب او رعقیدے کے لئے کوئی گنجاش نہیں ہوگی ۔

بی ایس ایف کی سالانہ میگزین ’بارڈر مین ‘ میں ڈی ائی جی انٹلیجنس کشمیر ایس ایس گولیریہ نے لکھا ہے کہ پاکستان کی پرپرستی والے’ سلفی ازم ‘ ایسا محسوس ہورہا ہے کہ ’کشمیریت ‘ کے خاتمہ کی وجہہ بن رہا ہے’’ شدت پسند اسلام کے مقابلے میں ہمیں کشمیر کا نقصان ہورہا ہے ‘ جہاں سوائے سنیوں کے کسی دوسرے مذہب او رمذہبی طبقے کے لئے کوئی جگہ نہیں ہوگی‘‘۔

گولیریہ نے خبردار کیا ہے کہ شدت پسندی کی ذہنیت کی جڑیں اس قدر مضبوط ہوگئی ہیں کہ وہ کشمیر میں ٹیچرس کے ذریعہ طلبہ کو غیر مسلمانوں کے خلاف نفرت بھرنے کاکام کیاجارہا ہے اور اسی طرح کاحال کالجوں میں بھی ہے۔

انہوں نے لکھا ہے کہ وہابی مبلغ منظم طریقے سے جمعہ اور ہفتہ کے اخری دنوں میں گاؤں آتے ہیں اور نوجوانوں کے ذہنوں میں سلفی ائیڈیالوجی بھرنے کاکام کرتے ہیں۔

اس کے حل کے لئے اپنی تجویز میں گولیریہ نے یہاں پر سنیما ہال‘ شرات کی دوکانیں وادی میں کھولنے کی وکلات کی اور ٹھیک اسی طرح کنسرٹ منعقد کرنے او رائی پی ایل میاچوں کا انعقاد عمل میں لانے کی بات کہی۔

اس کے علاوہ انہوں نے شدت پسندی کے خلاف سخت قوانین نافذ کرنے ‘ مدرسوں کو کم کرنے اور اہم مذہبی نکات پر مشتمل نصاب کتابوں کی اشاعت پر بھی زوردیا۔اس افیسر نے حریت‘ جماعت اسلامی‘ اہل حدیث اور اس طرح کی دیگر تنظیموں کو پاکستان کے ذریعہ جس کو اس کام میں ’’ چین کی مکمل مدد حاصل ہے‘‘ ذمہ دار اٹہرایا جو وادی میں کشیدگی بڑھانے کے لئے کوشاں ہیں۔

وہابی اجارہ داری افیسر کے مطابق کشمیریوں کی بغاوت کو ’’ آزادی‘‘ کانام دے رہا ہے۔ کشمیر میں مخالف ملک پیش آنے والے حالات کو معمول سمجھاجارہا ہے‘ مگر یہ تشویش ناک ہے جو کشمیری موجودگی کے لئے ایک بڑا خطرہ ہے۔

صدرجمہوریہ میڈیل حاصل کرنے والے اس افیسر نے لکھا ہے کہ بالخصوص ساوتھ کشمیر میں 5سے 6مبلغ گاؤں کو دورہ کرتے ہیں جہاں پر بیس سے پچیس سال کی عمر کے پندرہ سے بیس نوجوان کا گروپ پہلے سے موجود رہتا ہے جنھیں چائے اور بسکٹ پیش کئے جاتے ہیں۔

مذکورہ مبلغ سلفی ائیڈیالوجی کی بات کرتے ہیں‘ نفرت اور دیگر طبقات کے خلاف عدم روداری پر خطاب کرتے ہیں اور علیحدگی کی وکالت کرتے ہیں۔گولیریہ نے لکھا ہے کہ ’’ بڑے منظم انداز میں یہ ذہن سازی کی جارہی ہے ۔

یہ شدت پسندوں کو علیحدگی پسندوں کی جانب سے حوصلہ دیا جاتا ہے کہ وہ اقلیتی طبقے کے ممبران( بالخصوص سکھوں) کوکشمیر چھوڑنے پر مجبور کریں جس کی وجہہ سے وہ اپنے مذہب چھوڑدیں گے‘ جو کشمیریت کا حصہ ہے‘‘۔

پچھلے کچھ دہوں کے مقابلہ اب وہابی زیر کنٹرول مساجد ‘جس میں اہل حدیث بھی شامل ہیں افیسر کے دوگنایعنی ایک ہزار ہوگئے ہیں جس میں قدیم روایتی کشمیری صوفی بارگاہوں کے بجائے مقامی نوجوان وہاں پر نماز ادا کررہے ہیں۔

افیسر کے مطابق پرنٹ‘ الکٹرانک او رسوشیل میڈیا کے علاوہ گلف اور نارکودہشت گردی‘ تنظیمیں جیسے لشکر طیبہ اور جیش محمد جیسے تنظیموں سے حاصل ہونے والے پیسوں کے ذریعہ وہ وہابی لٹریچر کی تقسیم عمل میں لارہے ہیں۔

اسی کے ذریعہ وہ تعلیمی یافتہ کشمیری نوجوانوں کو جو صوفی ازم کو روداری ‘ پاکیزگی تصور کرتے ہیں ان کے جال میںآسانی کے ساتھ پھنس رہے ہیں۔

ان کا یہ عمل بڑی تعداد میں تعلیمی یافتہ نوجوانوں کو جن کا تعلق دولت مند گھرانو ں سے ہے دہشت گردی میں ملوث کررہا ہے۔

نوجوان کشمیری جہادی ائیڈیالوجی کے پروپگنڈے جس میں اسلامک اسٹیٹ ‘ القاعدہ اور ائی ایس کا ائن لائن پروپگنڈہ کو پڑھ رہے ہیں ۔

اے کیو ائی ایس اور حز ب المجاہدین ان دیگر لوگوں میں جو نوجوان نسل سے متاثرکررہے ہیں۔

افیسرکے مطابق فی الحال وادی میں 365دہشت گرد ہیں جس میں172پاکستان کے ہیں۔انہو ں نے اپنے مضمون میں کشمیر کے اندر کشیدگی کو بڑھانے کے لئے پاکستان کو چین کی طرف سے ملنے والی مالی امداد کا بھی خلاصہ کیا اور حکومت ہندکو ان معاملات سے نمٹنے کے لئے مختلف تجاویز بھی پیش کئے۔