ضمنی انتخابی نتائج ‘ نوشتہ دیوار

   

ملک کی مختلف ریاستوں میں سات اسمبلی حلقوں کے ضمنی انتخابات ہوئے تھے ۔ نتائج کا اعلان ہوگیا ہے اور اس میں اپوزیشن کے انڈیا اتحاد کو بی جے پی اور این ڈی اے پر سبقت حاصل ہوئی ہے ۔ ان نتائج نے آئندہ پارلیمانی انتخابات اور پانچ ریاستوں میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کیلئے بی جے پی کی پریشانیوں میںاضافہ کردیا ہے ۔ حالانکہ یہ محض سات اسمبلی حلقوں کے نتائج تھے اور ان نتائج کا کسی بھی ریاست کی اسمبلی یا حکومت پر کوئی منفی یا مثبت اثر ہونے والا نہیں تھا تاہم اس کے نتائج نے سیاسی جماعتوں میں حوصلہ پیدا کردیا ہے ۔ جو جماعتیں اپوزیشن کے انڈیا اتحاد میں شامل ہوئی ہیں انہیں ان ضمنی انتخابات میں بی جے پی پر کامیابی حاصل ہوئی ہے اور یہ بی جے پی کیلئے نوشتہ دیوار سے کم نہیں ہے ۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ نتائج ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جبکہ سارے ملک میں انتخابات کا موڈ بن رہا ہے ۔ پانچ ریاستوں راجستھان ‘ مدھیہ پردیش ‘ چھتیس گڑھ ‘ تلنگانہ اور میزورم میں آئندہ دو تا تین ماہ میں انتخابات ہونے ہیں اور ان کیلئے شیڈول کی اجرائی کا انتظار کیا جا رہا ہے ۔ ایسے میں اپوزیشن انڈیا اتحاد کیلئے یہ نتائج ایک اچھی علامت کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ ان نتائج کا ایک اور مثبت پہلو یہ ہے کہ انڈیا اتحاد میںشامل مختلف جماعتوں کو یہ کامیابی ملی ہے ۔ ایسا نہیں ہے کہ صرف ایک جماعت نے کامیابی حاصل کی ہے ۔ اترپردیش میں سماجوادی پارٹی نے جیت درج کی ہے ۔ مغربی بنگال میں ممتابنرجی کامیاب رہی ہیں تو کیرالا میں کانگریس نے اپنی عوامی مقبولیت کا ثبوت دیا ہے ۔ اس طرح ملک کی الگ الگ ریاستوں میں الگ الگ جماعتوں کی بی جے پی کے خلاف کامیابی نے ایک طرح سے صورتحال کی عکاسی کرنے کی کوشش کی ہے ۔ اپوزیشن کا دعوی ہے کہ ان نتائج سے یہ واضح ہونے لگا ہے کہ ملک کی الگ الگ ریاستوں میں بھی بی جے پی کے خلاف رائے عامہ پیدا ہوئی ہے اور عوام ایک موثر اور بہتر متبادل کے حق میں اپنے ووٹ کا استعمال کرنے لگے ہیں۔یہ نتائج اس لئے بھی اہم ہیں کیونکہ انڈیا اتحاد نے متحدہ مقابلہ نہیں کیا تھا ۔ متحدہ مقابلہ کے نتائج اور بھی الگ ہوتے ۔
آئندہ اسمبلی اور پارلیمانی انتخابات کیلئے انڈیا اتحاد کی جو تیاریاں ہیں وہ اب اور بھی تیز ہوچکی ہیں۔ قبل از وقت پارلیمانی انتخابات کے اندیشوں کو دیکھتے ہوئے اس اتحاد نے اپنی سرگرمیاں تیز کردی ہیں ۔ مختلف پروگرامس تیار کئے جا رہے ہیں۔ مشترکہ حکمت عملی کی تیاری پر غور و خوض جاری ہے ۔ جب بی جے پی کے خلاف اپوزیشن کے مشترکہ مقابلہ کا فیصلہ ہو جائیگا اور نشستوں کی تقسیم پر اتفاق رائے پیدا کرتے ہوئے بی جے پی کے خلاف صرف ایک مشترکہ امیدوار میدان میںا تارا جائیگا تو پھر بی جے پی کیلئے یہ مقابلہ آسان نہیں ہوگا ۔ جس طرح اب تک تین اجلاس منعقد کرتے ہوئے انڈیا اتحاد نے پیشرفت کی ہے اس کو دیکھتے ہوئے بی جے پی میں پہلے ہی سے بوکھلاہٹ پیدا ہوگئی ہے۔ شائد یہی وجہ ہے کہ ملک کے نام کو انڈیا سے بھارت کرنے کی کوششیں منظم انداز میں شروع ہوچکی ہیں۔ یہ بی جے پی کی بوکھلاہٹ کا ثبوت ہے ۔ آئندہ پارلیمانی انتخابات سے قبل راجستھان ‘ مدھیہ پردیش ‘ چھتیس گڑھ ‘ تلنگانہ اور میزورم کے نتائج بھی اگر اسی طرح کے آتے ہیں اور بی جے پی کو کسی بھی ریاست میں شکست کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو پھر آئندہ پارلیمانی انتخابات کا منظر اور بھی زیادہ واضح ہوجائیگا اور بی جے پی کے خلاف بننے والے اتحاد کے حوصلے بلند ہوجائیں گے ۔ سات اسمبلی حلقوں کے نتائج سے پہلے ہی بی جے پی کی مشکلات میںاضافہ ہوچکا ہے ۔ دہلی میں جاری جی 20 کانفرنس کی وجہ سے ان نتائج کی وہ تشہیر نہیںہوئی جو ہونی چاہئے تھی ۔
ویسے بھی جو نیشنل میڈیا ہے اس کی غیرجانبداری مشکوک ہی ہے ۔ میڈیا گھرانے حکومت کی چاپلوسی اور تلوے چاٹنے میں مصروف ہیں۔ حکومت کی ناکامیوں اور اس کی شکستوں کو عوام پر ظاہر کرنے میں انہوں نے بھی بددیانتی کا مظاہرہ کیا ہے ۔ اس کے باوجود سوشیل میڈیا اس معاملہ میںاپنا سرگرم رول نبھا رہا ہے اور اس کے ذریعہ اپوزیشن اتحاد کی کامیابیوں اور اس کی اب تک کی پیشرفت کی تشہیر ہورہی ہے ۔ ملک میں پیدا ہوئے انتخابی ماحول میں بی جے پی کی شکست اور انڈیا اتحاد کی کامیابی پر بی جے پی کی جوابی حکمت عملی کیا ہوتی ہے یہ ابھی دیکھنا ہوگا جبکہ یہ طئے ہے کہ انڈیا اتحاد کے حوصلے بلند ہوئے ہیں۔