طالبان ۔امریکہ امن معاہدہ ہنوز بہت کچھ باقی

   

ڈین لیوس
حالیہ دنوں میں دنیا میں جو اہم واقعات رونما ہوئے ہیں ان میں ایک امریکہ اور طالبان کے درمیان ایک تاریخی معاہدہ کا طے ہوجانا ہے ۔افغانستان میں 19 سالہ جنگ کے بعد قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امریکہ اور طالبان کے درمیان تاریخی امن معاہدے پر دستخط ہوئے ہیں۔ معاہدے کے مطابق اگر طالبان معاہدے کی خلاف ورزی نہیں کرتے ہیں تو امریکہ اور ان کے نیٹو اتحادی اگلے 14 ماہ میں افغانستان سے اپنی تمام افواج واپس بلا لیں گے۔معاہدے پر امارتِ اسلامیہ افغانستان کی جانب سے طالبان رہنما ملا عبدالغنی برادر اورامریکہ کی جانب سے خصوصی نمائندے زلمی خلیل زاد نے دستخط کیے جس کے بعد ایک نئی شروعات ہوئی ہے جس نے افغانستان کے عوام کو امید کی کرن دکھائی ہے۔ سابق سوویت یونین نے جب 1979 میں افغانستان پر حملہ کیا تھا تو اس وقت خیال کیا جارہا تھا سوویت یونین کا افغانستان میں فوجیں اتارنے کا مقصد صرف افغانستان نہیں بلکہ روسی فوج کو آگے بڑھانا ہے۔ اس لئے روس کا راستہ روکنے کی کوشش کی گئی۔ اس مقصد کے لیے پس پردہ مختلف قوتیں بھی سرگرم رہیں لیکن مقابلے میں افغان مجاہدین سامنے آئے اور انہوں نے روسی فوج کا خوب مقابلہ کیا۔ روس کے افغانستان پر حملے کے بعد امریکہ بھی اس خطے میں داخل ہونے کی کوشش میں تھا اور روس کے افغانستان پر حملے کے بعد امریکہ کا اس خطے میں اثر و رسوخ بڑھ گیا۔ روس کے افغانستان پر حملے کے وقت اگرچہ امریکہ براہ راست سامنے نہیں آیا تھا لیکن امریکہ نے افغانستان میں روس کا راستہ روکنے کیلئے کسی نہ کسی طریقے سے مداخلت ضرور کی۔ افغان طالبان کی امداد کی گئی۔ روس تو شکست کے بعد افغانستان سے چلا گیا لیکن افغانستان میں اقتدارکی جنگ جاری رہی۔ افغانستان میں مجاہدین جو طالبان کے نام سے سامنے آئے، انہوں نے افغانستان کے اکثریتی علاقوں پر قبضہ کرلیا اور کابل کا کنٹرول سنبھال لیا۔ طالبان نے افغانستان میں اسلامی ریاست قائم کی لیکن افغانستان کے کچھ علاقوں میں جنگی صورتحال برقرار رہی۔ جب امریکہ کو طالبان کی ضرورت تھی تو وہ امریکہ کیلئے برے تصور نہیں کیے جاتے تھے لیکن جب امریکہ کو ان کی ضرورت نہیں رہی توامریکہ نے افغان طالبان کو اپنے اچھے ساتھیوں کی فہرست سے نکال دیا اور وہی طالبان امریکی زبان میں دہشت گرد کہلائے جانے لگے۔ روس کے افغانستان پر حملے نے اس خطے پر بہت خوف ناک اثرات چھوڑے۔ افغان مہاجرین کی بڑی تعداد نے پاکستان کا رخ کیا۔ پاکستان نے نہ صرف افغان مہاجرین کے بوجھ کو برداشت کیا بلکہ افغانستان میں جنگ کے اثرات پاکستان پر دہشت گردی، بم دھماکوں کی صورت میں بھی پڑے۔ پاکستان کو بھی افغانستان کی جنگی صورتحال کے باعث مالی اور جانی نقصان برداشت کرنا پڑا۔9/11 واقعے میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے کے بعد امریکہ کے افغانستان پر حملے کا زیادہ نقصان بھی پاکستان کو اٹھانا پڑا۔ امریکہ میں جب 9/11 کا واقعہ رونما ہوا تو الزام القاعدہ پر لگا اور اسامہ بن لادن کی موجودگی افغانستان میں ظاہر کی گئی۔ امریکہ افغانستان پر حملہ آور ہوا اور امریکی فوج نہ صرف افغانستان میں اتاری گئی بلکہ امریکہ نے پاکستان میں بھی وسائل کا استعمال کیا۔ افغانستان کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے توکوئی بھی حملہ آور افغانستان میں فتح یاب ہوکر نہیں لوٹا۔ امریکہ کو افغانستان میں جنگ لڑتے ہوئے 19 سال کا عرصہ گزرگیا لیکن وہ اپنے مقاصد حاصل نہیں کرسکا۔ بالآخر امریکہ کو بھی طالبان سے مذاکرات کا راستہ اپنانا پڑا۔ ماضی میں بھی امریکہ نے مذاکرات کے ذریعے افغانستان سے بھاگنے کی کوشش کی لیکن اس میں کامیاب نہ ہوسکا۔ امریکہ کے افغانستان میں فوجیں اتارنے کے 19 سال بعد قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدے پر دستخط ہوئے۔ اس تاریخی لمحے کو رپورٹ کرنے کیلیے پوری دنیا کا میڈیا دوحہ میں موجود تھا۔ معاہدے پر اماراتِ اسلامیہ افغانستان کی جانب سے طالبان رہنما ملا عبدالغنی برادراورامریکہ کی جانب سے خصوصی نمائندے زلمی خلیل زاد نے دستخط کیے۔ معاہدے کے بعد امریکی وزیر دفاع مارک ایسپر نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ اگر افغان طالبان امن و امان کی ضمانتوں اور افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کے وعدے پر عمل درآمد نہیں کرتے تو ہم اس تاریخی معاہدے کو ختم کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کریں گے۔ معاہدے پر دستخط کے بعد دوحہ ہی میں نیوزکانفرنس کرتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے کہا کہ افغان طالبان القاعدہ کے ساتھ تمام روابط ختم کرنے کا وعدہ پوراکریں۔ معاہدے کے مطابق اگر طالبان معاہدے کی خلاف ورزی نہیں کرتے تو امریکہ اوران کے نیٹو اتحادی اگلے 14ماہ میں افغانستان سے اپنی تمام افواج واپس بلا لیں گے۔ امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان امن معاہدے پر دستخط تو کردیے گئے ہیں لیکن کابل میں افغان حکومت کے اس بیان کہ وہ قیدیوں کو رہا نہیں کریں گے اور طالبان کا یہ بیانیہ کہ وہ افغان افواج کے خلاف لڑیں گے لیکن غیر ملکی افواج کو نشانہ نہیں بنائیں گے اس سے معاملہ سلجھتا نہیں الجھتا دکھائی دیتا ہے۔ امریکہ کے افغانستان میں حملے سے قبل بھی افغانستان میں اقتدار کی جنگ جاری تھی اوراگر امریکہ افغانستان سے نکل بھی جاتا ہے تو افغانستان میں امن کی ضمانت کون دیگا؟ اس لئے دوحہ میں ہونے والے امن معاہدے میں ہونا تو یہ چاہیے تھا اس میں افغان حکومت کو بھی شامل کیا جاتا اور افغانستان میں جتنے بھی سیاسی گروہ ہیں انہیں مدعو کرتے ہوئے مستحکم افغانستان کی جانب پیش قدمی کی جاتی۔ دوسری جانب ماہرین کے مطابق ابھی بھی افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان معاہدے کی پائیداری کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ وہ قوتیں جو اس خطے میں امن کو مستحکم ہوتے نہیں دیکھ سکتیں وہ ایک بار پھر غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوشش کریں گی۔ جس طرح ماضی میں بھی دیکھنے میں آیا ہے۔ اس لیے افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان امن معاہدے کے بعد افغانستان کے اندر فریقین کو مذاکرات کی میز پر لانا ہوگا۔ مستحکم افغانستان بناکر خطے کو مستحکم کرنا ہوگا۔