عادل آباد ‘ نظام آباد اور ملکاجگری پر توجہ ‘ بی جے پی کی جان توڑ کوشش

,

   

مسلم اکثریت والے علاقوں میں کم رائے دہی سے بی جے پی کے امکانات بڑھ جانے کے اندیشے
حیدرآباد۔/16 اپریل، ( سیاست نیوز) تلنگانہ میں لوک سبھا کی 17 نشستوں کے انتخابی اعلامیہ کی اجرائی کیلئے دو دن باقی ہیں اور مرکز میں برسراقتدار بی جے پی 10 نشستوں پر کامیابی کیلئے طرح طرح کے منصوبے اور حربے استعمال کررہی ہے۔ عام طور پر سیاسی پارٹیوں کی کوشش ہوتی ہے کہ رائے دہی کے فیصد میں اضافہ ہو لیکن بی جے پی اور سنگھ پریوار تلنگانہ میں قدم جمانے کیلئے مسلمانوں کی رائے دہی کو روکنے کی سازش کررہا ہے۔ انتخابی مہم کے آغاز سے قبل ہی دیہی علاقوں میں سنگھ پریوار کے کارکنوں کو پھیلا دیا گیا ہے جو ایک طرف گھر گھر پہنچ کر اکثریتی طبقہ کے رائے دہندوں کو بی جے پی کی تائید کیلئے راغب کررہے ہیں تو دوسری طرف مسلم اقلیتی رائے دہندوں کو رائے دہی میں حصہ لینے سے روکنے بالواسطہ طور پر دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ بی جے پی نے جس وقت تلنگانہ کی 10 لوک سبھا نشستوں پر کامیابی کا نشانہ مقرر کیا اسی وقت اندازہ ہوچکا تھا کہ تلنگانہ سنگھ پریوار کی زد میں ہے اور بی جے پی زائد نشستوں پر کامیابی کیلئے کسی بھی حد تک جاسکتی ہے۔ بی جے پی ذرائع نے خود اعتراف کیا کہ وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ ہفتہ واری اساس پر تلنگانہ کی صورتحال کا جائزہ لے رہے ہیں۔ سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کے ذریعہ رپورٹ طلب کی جارہی ہے تاکہ اس بات کا پتہ چلایا جاسکے کہ ہندوتوا ایجنڈہ پر کس حد تک عمل آوری کی جارہی ہے۔ بی جے پی ملک میں’ سب کا ساتھ سب کا وکاس‘ کا نعرہ لگاکر یہ تاثر دینا چاہتی ہے کہ وہ کسی بھی طبقہ کے خلاف نہیں ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے گذشتہ دنوں یہاں تک کہہ دیا کہ ہندوستان میں ہر کسی کو اپنی پسند کے لباس اور غذا کے استعمال کا حق حاصل ہے۔ نریندر مودی کا یہ بیان ظاہر ہے صرف اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا کیلئے ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ سنگھ پریوار نے کئی ریاستوں میں حجاب اور حلال کے نام پر مسلمانوں کا عرصہ حیات تنگ کرنے کی کوشش کی ہے۔ تلنگانہ میں اُتر پردیش ماڈل پر عمل کرتے ہوئے لوک سبھا چناؤ میں مسلمانوں کو ووٹنگ میں حصہ لینے سے روکنے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔ باوثوق ذرائع کے مطابق شہری علاقوں میں نیم فوجی دستوں کے ذریعہ مسلم اکثریتی آبادیوں کے رائے دہندوں کی کڑی نگرانی کی جائے گی جبکہ دیہی علاقوں میں مسلمانوں کو رائے دہی میں حصہ لینے کے خلاف دھمکیاں دی جارہی ہیں تاکہ وہ رائے دہی سے قبل نقل مقام کرلیں اور مسلم ووٹ سیکولر پارٹیوں کو حاصل نہ ہوں۔ اُتر پردیش میں اعظم خاں اور ان کے خاندان کو شکست دینے جس طرح نیم فوجی دستوں اور نظم و نسق کا استعمال کیا گیا ٹھیک اسی طرح تلنگانہ میں بھی غیر محسوس طریقہ سے مسلم علاقوں کی ناکہ بندی کرکے ووٹنگ فیصد متاثر کیا جاسکتا ہے۔ انتخابی عمل کے دوران پولیس اور نیم فوجی دستوں کے علاوہ سیول نظم و نسق راست الیکشن کمیشن کے کنٹرول میں ہوتا ہے۔ الیکشن کمیشن کی مرکزی حکومت اور بی جے پی کو تائید ہر کسی پر عیاں ہے۔ ان حالات میں الیکشن کمیشن کے ذریعہ تلنگانہ کی مسلم آبادیوں کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔ آزادانہ اور منصفانہ رائے دہی اور رائے دہی کے فیصد میں اضافہ الیکشن کمیشن کا نعرہ ہے لیکن زمینی سطح پر سنگھ پریوار کی سرگرمیوں کو دیکھیں تو اندازہ ہوگا کہ الیکشن کمیشن نے اپنی آنکھیں موند لی ہیں۔ اطلاعات کے مطابق عادل آباد، نظام آباد، کریم نگر، میدک اور ملکاجگری کے ایسے علاقوں میں جہاں مسلمانوں کے محدود گھر ہیں وہاں سنگھ پریوار کے کارکن پہنچ کر الیکشن سے قبل نقل مکانی کا مشورہ دے رہے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ انتخابی مہم کے دوران فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا کرکے مسلمانوں میں خوف و ہراس کا ماحول پیدا کرنے کی حکمت عملی تیار کی گئی ہے۔ بی جے پی نے جن 10 لوک سبھا حلقوں پر ٹارگٹ رکھا ہے وہاں ہزاروں آر ایس ایس اور دیگر تنظیموں کے کارکن متحرک ہوچکے ہیں۔ دن کے اوقات میں بی جے پی قائدین معمول کی انتخابی مہم میں مصروف دکھائی دے رہے ہیں جبکہ رات میں سنگھ پریوار کے کارکنوں کے ساتھ اجلاس منعقد کرکے مسلم رائے دہی کو روکنے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔ دیہی علاقوں کے مواضعات میں کئی ایسے ہیں جہاں مسلمانوں کے پانچ تا دس مکانات بمشکل پائے جاتے ہیں اور اس گاؤں میں مسلم رائے دہندوں کی تعداد 50 تا 100 کے درمیان ہے ان میں سے کئی خاندان ایسے ہیں جنہوں نے اپنا مقام تبدیل کردیا لیکن ان کے نام فہرست رائے دہندگان میں موجود ہیں۔ حال میں چنگی چرلہ میں فرقہ وارانہ کشیدگی کے ذریعہ بی جے پی نے اپنی منصوبہ بندی کا خلاصہ کردیا ہے۔ سنگھ پریوار کی سرگرمیوں پر ایک طرف حکومت کو نظر رکھنی چاہیئے تو دوسری طرف سیکولر پارٹیوں کے قائدین اور امیدواروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ مسلم خاندانوں کے تحفظ کو یقینی بنائیں۔ دیہی علاقوں میں معمولی ووٹ کے فرق سے کامیابی اور شکست کا اندیشہ رہتا ہے لہذا بی جے پی نے مسلم رائے دہی کو روکنے کی منصوبہ بندی کی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ ایک طرف مسلم آبادیوں میں خوف و ہراس کا ماحول پیدا کیا جائے گا تو دوسری طرف فہرست رائے دہندگان سے مسلم نام بڑے پیمانے پر حذف کرنے کی تیاری ہے۔ الیکشن کمیشن نے تلنگانہ کیلئے قطعی فہرست رائے دہندگان جاری کردی ہے تاہم ناموں کی شمولیت کیلئے 15 اپریل تک مہلت دی گئی تھی۔ ظاہر ہے کہ 15 اپریل تک داخل کی گئی درخواستوں کا جائزہ لیتے ہوئے الیکشن کمیشن اضافی فہرست رائے دہندگان جاری کرے گا۔ مبصرین کا عوام بالخصوص مسلم رائے دہندوں کو مشورہ ہے کہ وہ فہرست رائے دہندگان میں اپنے ناموں کی موجودگی کا پتہ چلائیں اور پولنگ اسٹیشنوں پر موجود فہرستوں کی جانچ کریں۔ اگر صرف رائے دہی کے دن ہی پولنگ اسٹیشن پہنچنے کا منصوبہ ہے تو نام کی عدم موجودگی سے مایوسی کے ساتھ واپس لوٹنا پڑے گا۔ حالیہ اسمبلی انتخابات میں کئی مسلم علاقوں میں سینکڑوں رائے دہندوں کے نام فہرست سے غائب تھے۔ اب جبکہ بی جے پی نے فہرست رائے دہندگان میں مسلمانوں کی جانب سے بوگس ناموں کی شمولیت کا الزام عائد کرتے ہوئے الیکشن کمیشن سے نمائندگی کی ہے تو ایسے میں مسلم رائے دہندوں کو الیکشن کی تاریخ سے قبل ہی فہرست رائے دہندگان میں اپنے نام کی موجودگی کا جائزہ لینا ہوگا۔ الیکشن کمیشن کی ویب سائیٹ پر فہرست رائے دہندگان کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔1