عام انتخابات : کانگریس اوربی جے پی کے ارادے و منصوبے

   

پی چدمبرم
(سابق مرکزی وزیر داخلہ و فینانس)

انتخابات میں سیاسی جماعتیں عوام کو رجھانے اور انہیں اپنی تائید و حمایت کیلئے متحرک کرنے کی خاطر انتخابی منشور جاری کرتی ہیں جس میں یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ اقتدار میں آنے پر عوام کی بہبود کیلئے مختلف اقدامات و اسکیمات اور پروگرامس شروع کئے جائیں گے۔ انتخابی منشور میں کئی ایک گیارنٹیز کا بھی اعلان کیا جاتا ہے۔ بہرحال انتخابی منشور‘ سیاسی جماعتوں کے ارادوں و منصوبوں کا ایک تحریری اعلان ہے اور عوام سے متعلق مسائل پر ایک طرح سے سیاسی جماعتوں کا نقطہ نظر ہے۔ ہمارے ذہن میں چند مثالیں آرہی ہیں جیسے کہ اعلانِ آزادی اور قرارداد آزادی ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں 1776 میں پیش کردہ قراردادِ آزادی، پنڈت جواہر لال نہرو کی 14-15 اگسٹ 1947 میں کی گئی تاریخی تقریر’’ تقدیر کے ساتھ ‘‘ اسی طرح 24 جولائی 1991 کو ڈاکٹر منموہن سنگھ کی جانب سے کی گئی ایک تاریخی اور یادگار تقریر نے ہندوستانی معیشت کو نئی راہ اور ایک نئی سمت عطاء کی تھی۔ اپنی تقریر میں ڈاکٹر منموہن سنگھ نے وکٹر ہیوگو VICTOR HUGO کے اس قول کا حوالہ دیا تھا جس میں وکٹر نے کہا تھا کہ دنیا کی کوئی بھی طاقت اُس آئیڈیا کو نہیں روک سکتی جس کا وقت آیا ہو۔
مذکورہ بیانات؍ تقاریر نے ببانگِ دہل پُرزور انداز میں اور واضح طور پر نئے اُصول و قواعد کا دراصل ایک اعلان اور ایک منصوبہ ہے۔ آپ سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ ایک بیان میں اس بیان دینے والے کا ارادہ اور اس کی نیت بھی پوشیدہ ہوتی ہے۔ جھوٹے لوگ جھوٹے بیانات دیتے ہیں، ایسی تقاریر کرتے ہیں جو جھوٹ اور دروغ گوئی و بے بنیاد دعوؤں سے بھری رہتی ہیں۔ اس ضمن میں ہم اور آپ مسٹر نریندر مودی کے بیانات‘ ان کی تقاریر اور وعدوں کی مثال پیش کرسکتے ہیں۔ مثال کے طور پر مودی نے 2014 میں انتخابات سے قبل انتخابی مہم کے دوران عوام سے کچھ یوں وعدہ کیا تھا : ’’ میں ہر ہندوستانی کے بینک اکاؤنٹ میں 15 ( پندرہ ) لاکھ روپئے جمع کرواؤں گا ، میں ہر سال روزگار کے 2 کروڑ مواقع پیدا کروں گا یعنی دو کروڑ بیروزگار نوجوانوں کو ملازمتیں فراہم کروں گا، میں کسانوں کی آمدنی دوگنی کردوں گا ‘‘ وغیرہ وغیرہ لیکن جب بات ان وعدوں پر عمل آوری کی آئی اور عوام نے جب مودی اور ان کی حکومت کو یہ وعدے یاد دلائے تب ان کے بااعتماد رفقاء نے ان وعدوں کو انتخابی جملے قرار دے کر اپنا دامن جھاڑ لیا۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ بی جے پی نے30 مارچ کو انتخابی منشور کمیٹی قائم کی جبکہ کانگریس نے 5 اپریل کو اپنا انتخابی منشور جاری کیا۔
سماجی، معاشی اور ذات پات پر مبنی مردم شماری، تحفظات
کانگریس ملک کے سماجی و معاشی حالات اور ان کی وجوہات سے اچھی طرح واقف ہے، وہ ذات پات پر مبنی مردم شماری کی بھی حامی ہے۔ درج فہرست طبقات و قبائیل اور ملک کے کمزور و محروم طبقات کو مختلف شعبوں میں تحفظات فراہم کرنے کے حق میں ہمیشہ رہی ہے۔ بہر حال کانگریس نے اس معاملہ میں اپنا ارادہ، اپنی نیت واضح کردی ہے اور اس بات کا اعلان کیا ہے کہ اگر مرکز میں کانگریس کی زیر قیادت حکومت تشکیل پاتی ہے تو قومی سطح پر وہ سماجی و اقتصادی اور ذات پات پر مبنی مردم شماری کروائے گی، اس کے ساتھ ہی وہ تحفظات کے معاملہ میں جو50 فیصد کی حد ہے اسے ہٹانے کیلئے دستور میں ترمیم کرے گی، معاشی طور پر کمزورEWS طبقات کیلئے ملازمتوں اور تعلیمی اداروں میں جو تحفظات فراہم کئے گئے ہیں وہ تمام طبقات اور برادریوں کیلئے بھی فراہم کئے جائیں گے۔
اقلیتیں : ہندوستان میں بے شمار مذہبی و لسانی اقلیتیں ہیں ، کانگریس نے واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ اس کا یہ ایقان ہے کہ تمام ہندوستانی‘ حقوقِ انسانی، اپنے اپنے مذہب پر عمل کرنے کی آزادی کے معاملہ میں یکساں ہیں، تمام کو مساویانہ حقوق حاصل ہیں، اس کے علاوہ کانگریس کا یہ بھی ایقان ہے کہ ہندوستان ایک ایسا عظیم ملک ‘ ایک ایسی عظیم جمہوریت ہے جس میں اکثریت ازم یا آمریت اور مذہبی خطوط پر عوام کی تقسیم کیلئے کوئی جگہ نہیں ہے کیونکہ تنوع دستور ہند کی روح اس کی اصل ہے۔ جہاں تک بی جے پی کا سوال ہے بی جے پی نے کانگریس پر خوشامدانہ پالیسیاں اختیار کرنے کا الزام عائد کیا ہے جو حقیقت میں اس ( بی جے پی ) کے اقلیت دشمن موقف کا ایک خفیہ لفظ ہے اور اس کی اقلیت دشمنی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ چونکہ مذہبی اقلیتیں مذکورہ دونوں قوانین کو امتیاز پر مبنی خیال کرتی ہیں ، وہ بی جے پی کے انتخابی منشور کا بڑی بے چینی سے انتظار کررہی ہیں۔
نوجوان اور ملازمتیں : ملک کے نوجوانوں میں بہت زیادہ بیروزگاری پائی جاتی ہے۔ مختلف علاقوں کے نوجوانوں میں بیروزگاری کی شرح مختلف پائی جاتی ہے۔ اس معاملہ میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ شرح اطمینان بخش( 5.9 فیصد ) نہیں ہے۔ اس کے علاوہ مینوفیکچرنگ یونٹ بھی ایسا لگتا ہے کہ ساکت ہوگیا ہے ( اس کا حصہ قومی مجموعی پیداوار میں 14 فیصد ہے) جبکہ افرادی قوت کی شراکت کی کمتر شرح ( پچاس فیصد ) اور بڑے پیمانے پر بیروزگاری کی شرح ( گریجویٹس میں 42 فیصد ) پائی جاتی ہے۔ کانگریس نے اپنے انتخابی منشور میں اس بات کا وعدہ کیا ہے کہ اگر وہ اقتدار میں آتی ہے تو30 لاکھ مخلوعہ جائیدادوں پر بھرتیاں عمل میں لائے گی۔ رائٹ ٹو اپرنٹسائس شپ ایکٹ منظور کرے گی۔ روزگار سے مربوط مراعاتی اسکیم ELI پر عمل کرے گی ( ان صنعتی گھرانوں کیلئے جو روزگار کے نئے مواقع پیدا کریں گی اور ملک بھر میں اسٹارٹ اپس کو فروغ دینے فنڈس اسکیم کیلئے ایک فنڈ قائم کرے گی جس سے بظاہر نوجوانوں میں ایک نیا جوش و جذبہ پیدا ہوگا۔ اس کے برعکس بی جے پی۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا بی جے پی بیروزگار نوجوانوں کیلئے زیادہ سے زیادہ پُرکشش منصوبے پیش کرنے کے قابل ہوگی؟ ۔
خواتین : انتخابی عمل میں خواتین جوش و خروش کے ساتھ حصہ لیتی ہیں ، وہ انتخابی مہم کے دوران سیاسی قائدین کی تقاریرکی بڑے غور سے سماعت کرتی ہیں اور آپس میں ان پر بحث و مباحث بھی کرتی رہتی ہیں۔ خواتین کی اہمیت و افادیت کے پیش نظر کانگریس نے خواتین کی بہبود کیلئے اپنے انتخابی منشور میں مہا لکشمی اسکیم کا اعلان کیا جس کے تحت ہر غڑیب خاندان کی ایک خاتون کو ایک لاکھ روپئے کی مالی مدد فراہم کی جائے گی۔MGNREGS کے تحت 400 روپئے یومیہ اجرت دی جائے گی، مہیلا بینک کا احیاء کیا جائے گا اور مرکزی ملازمتوں میں خواتین کو 50 فیصد تحفظات دیئے جائیں گے۔ کانگریس کے یہ ایسے وعدے ہیں جو یقینا خواتین کیلئے کشش کا باعث بنیں گے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا بی جے پی ہندوتوار سے بالاتر ہوکر عوام بالخصوص خواتین کیلئے ٹھوس منصوبے لیکر آئے گی یا نہیں۔
وفاقیت : آجکل بی جے پی اور نریندر مودی پر آمرانہ پالیسی اختیار کرنے کے الزامات عائد کئے جارہے ہیں اور کہا جارہا ہے کہ بی جے پی نے وفاقیت کو خطرہ میں ڈال دیا ہے حالانکہ دستور میں باضابطہ کہا گیا ہے کہ ہندوستان ریاستوں کی یونین ہے۔ بی جے پی نے ’ ون نیشن ون الیکشن ‘ کا جو نظریہ پیش کیا ہے اور اس نظریہ پر عمل آوری کی کوشش کررہی ہے اس نظریہ میں گہرے شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔ کانگریس نے اپنے انتخابی منشور میں وقافیت پر 12نکات پیش کئے ہیں کیا بی جے پی ان نکات پر راضی ہوگی؟ ۔ اس میں سب سے اہم یہ ہے کہ Concurrent لسٹ کے چند قوانین کو ریاست کی لسٹ میں شامل کیا جائے گا۔ کانگریس کے انتخابی منشور کے یہ 12 نکات بی جے پی کیلئے ایک آزمائش ہے۔ جہاں تک میرا سوال ہے انتخابی میدان میں مقابلہ کرنے والی پارٹیوں کیلئے سب سے اہم مسئلہ پارلیمانی جمہوریت، حقوق انسانی، آزادی اور پرائیویسی کے ساتھ ساتھ دستوری اخلاقیات کا ہے اور میرا ووٹ ان ہی امیدواروں کیلئے ہے جو ان معیارات پر پورے اُترتے ہیں۔