عدم مساوات ‘ غربت اور بیروزگاری

   


ہندوستان میں تقریبا تمام گوشوں کی جانب سے ملک میں بیروزگاری ‘ غربت اور معاشی عدم مساوات پر تشویش کا اظہار کیا جاتا رہا ہے ۔ خاص طور پر جس وقت سے مرکز میں نریندر مودی حکومت برسر اقتدار آئی تھی اور اس کے آٹھ سال کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اس عرصہ میں ملک میں بیروزگاری اور غربت میں اضافہ ہوا ہے ۔ غریب عوام مزید غریب ہوتے گئے ہیں اور چند مٹھی بھر کارپوریٹس کی دولت میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے ۔ اس طرح سماج میں معاشی عدم مساوات بہت زیادہ ہوگئے ہیں۔ حکومت کا جہاں تک سوال ہے تو وہ حقیقت سے نظریں چرانے میںمصروف ہے ۔ وہ حقیقت کو تسلیم کرنے بھی تیار نہیں ہے اس کے حل کی تو بات ہی نہیں ہے ۔ خود مرکزی وزراء اور ارکان پارلیمنٹ ایوان میں تک یہ کہتے ہیں کہ ملک میں مہنگائی کہیں نہیں ہے ۔ ہمارے جو زر خرید ٹی وی چینلوں کے تلوے چاٹنے والے اینکرس ہیں انہیں بھی کہیں غربت نظر نہیں آتی ۔ کہیں مہنگائی نظر نہیں آتی ۔ کہیں بیروزگاری کا مسئلہ دکھائی نہیں دیتا اور نہ ہی ان پر کوئی مباحث کئے جاتے ہیں۔ اب جبکہ یہ کہا جا رہا ہے کہ راہول گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا کے نتیجہ میں عوام میں شعور بیدار ہوسکتا ہے اور کانگریس لیڈر کی اس پد یاترا کو عوامی تائید مل رہی ہے تو حکومت سے قربت رکھنے والے گوشوںکو بھی مہنگائی ‘ بیروزگاری ‘ غربت اور معاشی عدم مساوات کے مسائل یاد آنے لگے ہیں۔ سب سے پہلے تو مرکزی وزیر نتن گڈکری نے یہ مسائل اٹھائے تھے ۔ انہوں نے اعتراف کیا تھا کہ ملک میں بیروزگاری اور غربت میں اضافہ ہوا ہے اور اس کی وجہ سے عوام کے رہن سہن پر اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ اسی طرح سنگھ پریوار نے بھی حکومت کو نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں بیروزگاری اور معاشی عدم مساوات میں اضافہ ہوا ہے ۔ جب اپوزیشن کی جانب سے اس طرح کے دعوے کئے جاتے ہیں تو تلوے چاٹنے والے اینکرس چراغ پا ہوجاتے ہیں لیکن اب گڈکری یا پھر آر ایس ایس سے اس طرح کے مسائل پر تبصرہ کیلئے کوئی سوال نہیں کیا جا رہا ہے اور نہ ہی انہیں نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔
آر ایس ایس کے حالیہ دنوں میں جو بیانات سامنے آئے ہیں اور سنگھ سربراہ موہن بھاگوت نے جس طرح مسجد اور مدرسہ کا دورہ کیا اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ سنگھ نے بھی آئندہ عام انتخابات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنی سرگرمیوں کا آغاز کردیا ہے ۔ نتن گڈکری کا جہاں تک سوال ہے تو وہ پارٹی لائین سے ہٹ کر بات کرتے رہے ہیں۔ وہ عوامی مسائل پر کھل کر اظہار خیال کرتے ہیں۔ وہ بھی حالانکہ سنگھ سے تعلق رکھتے ہیں لیکن ان میں مسائل کو سمجھنے کی اہلیت ہے اور وہ عوامی مسائل کی اہمیت کو بھی سمجھتے ہیں۔ اسی لئے وہ عوامی مسائل پر تبصرے کرتے ہیں تاہم آر ایس ایس کی جہاں تک بات ہے تو وہ وقفہ وقفہ سے اس طرح کے بیانات دینے سے گریز نہیں کرتی ۔ اس سے قبل بھی موہن بھاگوت نے کئی مسائل پر اس طرح کے بیانات دئے تھے جو آج کے کٹر ہندوتوا حامیوں کے موقف سے مختلف کہے جاسکتے ہیں۔ تاہم یہ مسئلہ صرف بیان بازی تک محدود رہا ہے ۔ سنگھ نے اپنے سے الحاق رکھنے والی یا پھر اپنی ہم خیال تنظیموں اور ان کے کارندوں کو اشتعال انگیزی سے باز رکھنے کی کوئی کوشش نہیں کی ۔ بجرنگ دل ہو یا وشوا ہندو پریشد ہو یا پھر دوسری اسی طرح کی شدت پسند تنظیمیں ہوں یہ سبھی ملک میں مسلمانوںکے خلاف اشتعال انگیزی پر اتر آئی ہیں۔ کھلے عام ہتھیار اٹھانے کی تلقین کی جا رہی ہے لیکن سنگھ اس مسئلہ پر خاموش ہے ۔ مسلمانوں کا عرصہ حیات تنگ کرنے کے اقدامات کئے جا رہے ہیں لیکن سنگھ نے اس پر بھی کوئی لب کشائی نہیں کی ہے ۔
اب جبکہ ملک میں بیروزگاری ‘ غربت اور معاشی عدم مساوات پر سنگھ پریوار اور خود مرکزی وزیر نتن گڈکری کی جانب سے بیان دیا گیا ہے تو حکومت کو اس کا کم از کم نوٹ لینا چاہئے ۔ اس پر حکومت کو جواب دینے کی ضرورت ہے ۔ ملک کے عوام میں بھی یہی سوالات گشت کر رہے ہیں۔لوگ مسائل سے پریشان ہیں۔ ان کی مشکلات میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ حکومت کو خاموش تماشائی بنے رہنے اور حقیقت کو جھٹلانے کی بجائے حقیقت کا سامنا کرنا چاہئے ۔ مسائل کا اعتراف کرنا چاہئے اور مسائل کی یکسوئی کیلئے جامع اور مبسوط حکمت عملی بناتے ہوئے اقدامات کرنے چاہئیں۔