عصمت ریزی کے ملزم کو سزائے موت

   

سزا کو سخت بنانے سے کچھ نہیں ہوتا
ذہنیت کو جو بدل دو تو کوئی بات بنے
عصمت ریزی کے ملزم کو سزائے موت
ہندوستان میںعصمت ریزی کے واقعات میںخطرناک حد تک اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ افسوس اور حیرت کی بات یہ ہے کہ جہاں عمر رسیدہ اور شادی شدہ خواتین محفوظ نہیں ہیں وہیں نوجوان لڑکیاں سب سے زیادہ نشانہ پر ہیں۔ تاہم حالیہ عرصہ میںانتہائی کمسن اور معصوم لڑکیوں تک کو نہیں بخشا گیا اور انہیں درندہ صفت لوگوں نے اپنی ہوس کا نشانہ بنایا اور بعض صورتوں میںانہیںموت کے گھاٹ بھی اتاردیا ۔ یہ ایک انتہائی افسوسناک پہلو ہمارے معاشرہ کا ہے جو حالیہ عرصہ میں سامنے آیا ہے ۔ گذشتہ مہینوں میںتلنگانہ کے ضلع ورنگل میںایک ایسا ہی واقعہ پیش آیا تھا ۔ جہاںہنمنکنڈہ کے رہنے والے ایک نوجوان نے حالت نشہ میں ایک نو ماہ کی لڑکی کی عصمت ریزی کی اور پھر اسے قتل کردیا گیا ۔ ہندوستان بھر میںا یسے بے شمار واقعات پیش آ رہے ہیں جن کے تعلق سے عوام میں یہ مطالبات شدت سے ابھرتے جا رہے تھے کہ عصمت ریزی کے خاطیوںکو سزائے موت دی جانی چاہئے ۔ کئی گوشوں سے وقفہ وقفہ سے یہ مطالبات ہوتے رہے ہیں لیکن حکومتوں کی جانب سے اس سلسلہ میںکوئی خاص پیشرفت نہیںہوسکی تھی ۔ مرکزی حکومت اور ریاستی سطح پر ایسے گھناونے جرائم کی روک تھام کیلئے حالانکہ کچھ قوانین بنائے گئے ہیںلیکن سزائے موت کی مثالیںشائد ہی ملتی ہوں۔ تاہم اب ورنگل کی ایک فاسٹ ٹریک عدالت نے ایک گھناونے جرم کے مرتکب نوجوان کو دو ماہ سے بھی کم وقت میںسزائے موت سنادی ہے اور یہ ایک مثال بن سکتی ہے ۔ ملک بھر میں اس کو ایک مثال کے طور پر پیش کیا جانا چاہئے ۔ جس طرح سے متعلقہ پولیس نے اس پر کارروائی کی ۔ معاملہ کو عدالت سے رجوع کیا اور عدالت نے بھی تیزی کے ساتھ اس کی سماعت کرتے ہوئے اندرون دو ماہ جو فیصلہ سنادیا ہے وہ قابل خیر مقدم ہے ۔ اسی طرح سے عصمت ریزی اور قتل کے واقعات کی سماعت ہونے کی ضرورت ہے تاکہ سماج کے درندہ صفت لوگوں میں کسی نہ کسی طرح کا خوف پیدا ہو اور وہ اپنے گھناونے جرم سے باز آسکیں۔ صرف قوانین بنانا کافی نہیںہوا ہے ان پر عمل آوری اور سخت سزاوں کا خوف ضروری ہے ۔
عصمت ریزی اور قتل ایسے واقعات ہیں جو سماج کی جڑوں کو کھوکھلا کرتے ہیں۔ خاص طور پر ہندوستان جیسے ملک میںجہاںعورت کو ایک دیوی کا مرتبہ دیا جاتا ہے ۔ اس کی عزت و احترام ساری دنیا میںمثالی ہوا کرتی ہے اور خاص طور پر ہندوستان میںاس کا احترام بہت زیادہ ہوتا ہے ۔ ایسے ملک میں اور ایسے معاشرہ میں چند درندوں کی وجہ سے خواتین کی عزت و عصمت کیلئے خطرات پیدا ہوگئے تھے ۔ خواتین اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھنے لگی ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ رکن اسمبلی اور دوسرے اہم عہدوںپر فائز افراد تک اس گھناونے جرم کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ عوام کی جانب سے احتجاج یا دھرنے اس مسئلہ کا حل نہیں ہیں اور نہ ہی حکومتوں کی جانب سے صرف قوانین بنانا کافی ہوسکتا ہے ۔ اس کیلئے فاسٹ ٹریک عدالتوں میں کسی ضمانت کے بغیر اندرون چند ماہ فیصلہ سنانے کی ضرورت ہے تاکہ خاطیوںمیںسزا کا حوف پیدا ہوسکے کیونکہ اب تک چندہفتوں کی جیل اور ضمانت پر رہائی اور پھر کسی نہ کسی طرح مقدمہ سے برات کی وجہ سے ایسے جرائم کا ارتکاب کرنے والوں میںکسی طرح کا خوف پیدا نہیںہوسکا ہے ۔ ملک بھر میںایسے بے شمار مثالیں ہیں جہاںایسا جرم کرنے والے درندے اب بھی آزادی سے گھوم رہے ہیں۔ ان کو کسی طرح کی پشیمانی بھی نہیںہے ۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ اس گھناونے جرم کو ناقابل ضمانت جرم بنایا جائے ۔ انہیںکسی ضمانت کے بغیرمقدمہ کا سامنا کرنے پر مجبور کیا جائے ۔ پولیس کسی طرح کی لاپرواہی یا تن آسانی سے کام لئے بغیر یا کسی کے رتبہ اور عہدہ کاپاس و لحاظ کئے بغیر یا کسی دباو کو تسلیم کئے بغیر کارروائی کرے اور عدالتوں میں پورے ٹھوس ثبوت و شواہد پیش کئے جائیںتاکہ عدالتوںکو بھی معاملات کی جلد یکسوئی میںمدد مل سکے اور خاطیوںکو کیفر کردار تک پہونچایا جاسکے ۔ ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ عصمت ریزی جیسے سنگین جرائم میںکسی طرح کا امتیاز بھی نہیں برتا جانا چاہئے ۔ ملزم چاہے کتنے ہی بڑے رتبہ کا حامل کیوں نہ ہو اسے کیفر کردار تک پہونچایا جانا چاہئے ۔ ورنگل کی فاسٹ ٹریک عدالت کی جانب سے کیا گیا فیصلہ مثالی ہے اور ملک بھر میں ایسے معاملات میں ایسے ہی تیزی سے فیصلے سنائے جانے کی ضرورت ہے ۔