عوام کو بیوقوف بنانے کے بجائے تلنگانہ کو چاہئے وہ کویڈ سے مقابلے کاطویل مدتی پروگرام بنائے

,

   

حیدرآباد۔ البرٹ مارین نے مذکورہ کتاب”ویری‘ ویری‘ ویری ڈریڈ فل“ میں حوالہ دیا ہے کہ”کوئی بھی مل ہندوستان کے جتنا متاثر نہیں ہواہے۔ ایک حیرت کی بات یہ ہے کہ 6.1فیصد یا 305.6ملین لوگوں میں سے 18.6ملین لوگ ہولناک اسپینش فلوسے مارے گئے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں عالمی جنگ کے دوران مجموعی طور پر جتنے سپاہی مارے گئے تھے اس سے دوگنا زیادہ جانیں ہندوستان نے گنوائی ہیں“۔

مذکورہ 1918کی عالمی وباء کے کئی طریقوں سے موجودہ حالات میں بے شمار یکسانیت پائی جاتی ہے۔یہاں پراس کا کے لئے تین چیزیں مثال کے طور پر پیش کی جارہی ہے ۱)اس وقت بھی کوئی علاج او رٹیکہ نہیں تھا اور اب بھی نہیں ہے‘۲)ممالک کے درمیان میں اس وقت بھی تال میل نہیں تھا

او راب بھی نہیں ہے‘۳)پہلے خوف وہراس اورفوری جیت کا اعلان۔مذکورہ آخری نکتہ اس وقت کافی اہم ہے‘ کئی حکومتیں بشمول ہندوستان معیشت کی بحالی اور دوبارہ شروعات کے دباؤ میں ہے۔

عالمی سطح پر مذکورہ اسپینی فلو نے ایک اندازے کے مطابق 50سے 100ملین کی جانیں لی تھیں۔ چین پھر اس کے ساتھ ہندوستان بڑی آبادی والا ملک تھا‘ بتایاجاتا ہے کہ 9.5ملین کی آبادی تھی۔موجود ہ عالمی وباء بھی اسی طرح کی پریشانیاں پیش کررہی ہے

جہاں پر ملک میں 16.919لوگوں کی موت ہوگئی ہے جبکہ اس وباء سے متاثرہونے والی کی تعداد568946تک پہنچ گئی ہے جس کے ساتھ ہی ہندوستان سب سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں چوتھے مقام تک پہنچ گیاہے۔

کئی محاذوں پر یومیہ اساس میں اضافے کے ساتھ امریکہ‘ برازیل اور روس کے بعد ہندوستان چوتھے مقام پر پہنچ گیاہے۔ بہتر یہ ہوگا کہ کچھ سبق حاصل کرنے کے لئے ہم اس وقت پیش ائے کچھ واقعات کی طرف دیکھیں۔ ایشیاء کے سب سے بڑا سلم علاقے دھاروی میں ہوئی کامیابی کی کہانیوں کو سارے ملک کی ان ریاستوں کے لئے مثال کے طور پر ہم پیش کرسکتے ہیں جہاں پر کویڈ19وباء سے مقابلے کی جدوجہد کی جارہی ہے۔

نہ صرف دھاروی جس کی آبادی 10,00,000سے زیادہ ہے کہ اس وائرس سے مقابلے کے لئے جیت حاصل کی ہے بلکہ راجستھان میں بھیلواڑہ بھی ے جس کی آبادی28لاکھ نفوس پر مشتمل ہے وہاں پر وباء سے قابل تسخیر مقابلہ کیاگیاہے۔ جبکہ تلنگانہ حکومت جانچ کے متعلق کافی سست نظر آتی ہے اور اسی وجہہ سے سارے ملک میں جانچ کے معاملے میں وہ دوسرے نمبر پر ہے۔

اپریل کے ابتداء میں ریاستی حکومت نے ایک دن میں 400جانچ سے شروعات کی تھی۔ بعدازاں جون کے آخر تک یہ بڑھ کر فی دن 2000لوگوں کی جانچ تک پہنچا۔درایں اثناء ریاستیں جیسے اترپردیش 22ہزار لوگوں کی فی دن جانچ کی ہے اور مہارشٹرا میں فی دن 15,000لوگوں کی جانچ انجام دی گئی ہے۔

اڈیشہ میں 5000فی دن‘ وہیں بہار میں 4000-5000لوگوں کی کی فی یوم جانچ کی جارہی ہے۔ جب دھاروی‘ بھیلواڑہ او ردہلی میں دلشاد گارڈن کے ہاٹ اسپاٹس میں کویڈ19سے مقابلہ کیاجاسکتا ہے تو پھر تلنگانہ میں کیو ں نہیں؟۔

مذکورہ سلم کے باشندے اور اس کے ڈاکٹرس نے عالمی وباء سے مقابلے کے لئے کمر کس لی ہے۔انہوں نے چار ٹی کے فارمولہ کو اپنا ہے۔

ٹریسنگ‘ ٹرایکنگ‘ ٹسٹنگ اور ٹریڈنگ‘گھر سے گھر جاکر خانگی دواخانوں اور میڈیکل عملے کی جانب سے 47500باشندوں سے زائد لوگوں کی حرکیاتی اسکریننگ اور اعلی سطحی بخار کے دواخانوں کی تشکیل بھی اس میں شامل ہے۔

موبائیل ویانس کے ذریعہ پندرہ ہزار او رمجالس مقامی کی جانب سے نصف ملین کے قریب لوگوں کا سروے کیاگیا ہے‘ جس میں 8246کے قریب سینئر شہریوں کی وہیں شناخت کی گئی اور انہیں دیگر لوگوں سے علیحدہ رکھا گیاتاکہ وائرس کی زد میں وہ نہ آسکیں۔

دھاروی میں جملہ 5,48,270لوگوں کا سروے اور اسکریننگ کی گئی ہے۔ان میں سے جیسا پانڈنیکر نے کہاکہ مذکورہ مشتبہ معاملات کو بہترین انداز میں منظم کئے گئے کویڈ سنٹرس یا قرنطین مرکز جو تمام امکانی اسکولوں‘ شادی خانوں‘ اسپورٹس کامپلکس وغیر ہ میں قائم کئے گئے ہیں وہ منتقل کیایا‘ جہاں پر کمیونٹی کچن کے ساتھ24X7میڈیکل خدمات مہیا کئے گئے ہیں۔

درایں اثناء مذکورہ بھیلواڑہ گھر گھر جاکر بڑے پیمانے پر مشق کی‘ جس کے ذریعہ محض نو دنوں میں 28لاکھ لوگوں کے قریب کی احاطہ کیاگیا۔نگرانی میں 11,000لوگوں کو رکھا جس کے پاس سے فلوکی علامتیں پائی گئی اور7000کے قریب لوگوں کو قرنطین میں رکھا گیاتھا۔ اس کے علاوہ دلشاد گارڈ دہلی کو کرونا وائرس قرارردیاگیا۔

دہلی کے وزیر صحت ستیندر جین نے کہاکہ ”اس اپریشن کے تحت 123میڈیکل ٹیموں نے15,000سے زائد لوگوں کی اسکریننگ کی جو دلشاد گارڈن کے 4032مکانات میں مقیم ہیں۔ صحت کے عہدیداروں کے سخت محبت اور اپریشن کے کامیاب نفاذ نے دلشاد گارڈن کو کرونا سے پاک کردیا ہے“۔

مہارشٹرا حکومت نے تمام خانگی اسپتالوں کے 80فیصد بیڈس کو اپنی تحویل میں لے لیا اور اس کا اخراجات بھی ادا کئے ہیں۔ درایں اثناء مہارشٹرا کے اندر معاملات میں اضافہ کے پیش نظر حکومت نے تمام خانگی اسپتالوں کے 80فیصد بیڈس اپنی تحویل میں لے لیا وہیں اسپتال انتظامیہ 20فیصد پر مشق کررہا ہے۔

مذکورہ حکومت مریضوں کو خانگی اسپتال بھیجنے کی کام کررہی ہے اور بل کی ادائیگی بھی عمل میں لارہی ہے۔ عام وارڈ اور ائسولیشن کے لئے 4000روپئے جبکہ 7500روپئے ائی سی بغیر ونٹیلیٹر اور ائسولیشن کے لئے اور 9000روپئے ائی سی یو ساتھ میں وینٹلیٹر اور ائسولیشن کے ساتھ میں مقرر کئے گئے ہیں‘

اس میں نگرانی اور جانچ جیسے سی بی سی‘ پیشاب کی جانچ‘ ایچ ائی وی اسپاٹ اینٹی ایچ سی یو‘ ایچ بی ایس اے جی‘ سیریم کیریاٹنائن‘ یو ایس جی‘ 2ڈی ایکو‘ ایکسرے ای سی جی‘ ڈرگس کنسلٹیشن‘ بیڈچارجس‘ نرسنگ چارجس‘ میلس‘ ریالس ٹیوب کا ادخال‘ یورائن ٹراکٹ کیتھرائزشن جیسے عمل بھی شامل ہیں۔

دھاروی گورنمنٹ اسپتال کے ڈاکٹر اوپینددر کمار نے کہاکہ ”وسائل کی کمی والی حکومت بھی فنکشن ہالوں او رکمیونٹی ہالوں کو جانچ کے لئے استعمال کرسکتی ہے جیسادھاروی میں کیاگیاہے“۔

تلنگانہ میں متعدد نیم طبی عملے‘ ڈاکٹرس اور میڈیکل کالجوں کا استعمال کیاجاسکتا ہے اور یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ تلنگانہ کے پاس بھی مساوی وسائل ہے جس کا وہ بہتر انداز میں استعمال کرسکتی ہے۔

مذکورہ حکومت کے پاس33میڈیکل کالجس اور ایک پوسٹ گریجویٹ انسٹیٹیوٹ او روہ نظام انسٹیٹوٹ آف میڈیکل سائنسیس (این ائی ایم ایس) ہے۔ ان 33میڈیکل کالجوں میں 5614میڈیکل فیکلٹی جو زمرہ بندی کی شکل میں پروفیسر /اسوسیٹ پروفیسر‘ اسٹنٹ پروفیسرس‘ ٹیوٹرس ہیں۔

سوائے چند ایک ٹیوٹرس کے ان میں سے تمام کی تعلیمی قابلیت ایم ڈی /ایم ایس اور کچھ تو سوپر اسپیشالٹی برائے ڈی ایم‘ ایم سی ایچ ہیں۔

یہاں پر 3859پوسٹ گریجویٹ میڈیکل اسٹوڈنٹس (ایم ڈی‘ ایم ایس بورڈ خصوصیت کے حامل) ہیں اور 381پی جی اسٹوڈنٹس نے سوپر اسپیشالیٹی (ڈی ایم‘ ایم سی ایچ) ہیں۔یہاں پر 1012غیر پی جی جونیر باشندے اور 1126سینئر باشندے ہیں۔ جب میڈیکل کالج میں سرکاری اور انتظامیہ کوٹہ 50/50فیصد رکھا جاتا ہے تو پھر اس کا استعمال کیوں نہیں کیاجاتا ہے۔

مہارشٹرا حکومت کی طرح مذکورہ تلنگانہ حکومت نہیں تو کیا مگر پچاس فیصد خانگی اسپتالوں کے بیڈس کو اپنی تحویل میں لے سکتی ہے اور اس کی رقم ضرور ادا کرے اور خانگی اسپتالوں کے ہزاروں نیم طبی عملے کے ملازمین کا استعمال کرے۔درایں اثناء مذکورہ ریاستی حکومت کے پاس 33میڈیکل کالج ہیں اور تقریبا4940ایم بی بی ایس اور 1971پی جی میڈیکل اسٹوڈنٹس ہیں

۔ اور ساتھ میں ان تمام سرکاری میڈیکل کالجوں میں 20,800بیڈس ہیں۔ خانگی اسپتالوں‘ ڈاکٹرس اور نیم طبی عملے کی فہرست اس سے کہیں بڑی ہے۔ جب تلنگانہ حکومت او رچیف منسٹر کے چندرشیکھر راؤایک دن میں سماگرا کٹمبا سروے (گھریلو سروے) ایک دن میں کرسکتے ہیں

جو سال2014اگست19کے روز3.5کروڑ کی آبادی پر کیاگیاتھا اور اس کام کے لئے 385892ملازمین کو مقرر کیاگیاتھا تو پھر کویڈ19کی اسکریننگ کیوں نہیں کی جاسکتی ہے؟

کویڈ سے ایک ریاست کس طرح مقابلہ کرسکتی ہے
جانچ میں تیزی‘ حکومت کو چاہئے کہ وہ کویڈ19کی جانچ کی طریقہ کار میں سہولتوں میں اضافہ کرنا چاہئے۔جانچ کو ان لوگوں تک محدود نہیں کرنا چاہئے جس کے پاس علامتیں دیکھائی دیتی ہے اور کسی ملک کے سفر سے ائے ہیں یا پھر ان کی ہی نہیں کی جانی چاہئے جو ایسے لوگوں سے رابطے میں ائے ہیں۔ طبی میدان میں کسی بھی مشتبہ شخص کی جانچ کرائی جانے چاہئے۔

فوڈ سکیورٹی او ر معاشی مدد۔رپورٹ کے مطابق 35لاکھ کے قریب ریاست میں خاندانوں کے پاس اگر لاک ڈاؤن اور عالمی وباء وجود میں رہتی ہے تو پیسے اور جمع بندی ختم ہوجائیں گے۔ایسے معاملے میں اگر حکومت دوبارہ لاک ڈاؤن نافذ کرتی ہے تو اس کو یقینی طور پر راشن کارڈہولڈرس کو اناج اور دوماہ کے لے کم سے فی ماہ 2000روپئے کی معاشی مدد کرنا ہوگا جو دو ماہ کے لئے 4000روپئے ہوتی ہے۔’

موبائیل جانچ:تنگ گلیوں‘ضلعی وسطی اور ضلع مراکز میں مذکورہ گاڑیوں کی رسائی ممکن ہوسکے‘ ایک دن میں زیادہ سے زیادہ نمونوں کے حصول میں اضافہ۔ مذکورہ موبائیل ویان کے ذریعہ ایک وقت میں دو لوگوں کے نمونہ حاصل کئے جاسکیں۔

اس سے ہاٹ اسپاٹس‘ سلم اور ریاست میں کنٹیمنٹ زون کی فوری جانچ ہوجائیگی۔درایں اثناء اس سے وائرس کی روک تھام میں مزید مدد ملے گی جو جانچ لرنے والے لیاپس میں ہجوم کے اکٹھا ہونے پر قابو پانے میں مدد گار ثابت ہوگا۔

لوگوں کو کسی بھی طرح جانکاری اور معلومات فراہم کرنا ہوگا:معمول کی معاشی سرگرمیوں کو برقرار رکھنا جس کا مطلب زیادہ تر لوگوں کے روزمرہ کی زندگی کو تحفظ فراہم کرنا ہے‘اور صحت عامہ کی ترجیح کے طور پراس کا اعتراف او رعمل بھی ناگزیر ہے۔ ایسے وقت میں یگانگت کی تعمیر کے متعلق بھی لوگوں میں جانکاریاں فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔

طبی عملے کی حفاظت کو یقینی بنانا۔طبی عملے کے لئے موثر او رحفاظتی آلات کے علاوہ کام کرنے کی ماحول کو محفوظ بنانا ہوگا۔
میڈیا اور سوشیل میڈیا مہم کی آزادی۔ تمام اوقات میں عالمی وباء اور اس کے مضمرات پر رپورٹنگ کے لئے میڈیا کو مکمل آزادی فراہم کی جائے۔

بالکل اسی طرح جیسے ’سوچ بھار ت ابھیان‘ کے لئے بڑ ے پیمانے پر مہم چلائی جارہی ہے مذکورہ شائقین کو پتہ چلے کے وہ لاک ڈاؤن کے اصولوں پر کس طرح عمل کریں۔

اسپتال کے بہتر خدمات۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ عوامی صحت خدمات کی تیاری کرے جس کے لئے ائی سی یو کے ساتھ کم سے کم دو اسپتال‘ ضروری ائسولیشن وارڈس اور وینٹیلیٹرس‘ اور ہر پانچ سے دس لاکھ کی آبادی کے لئے آکسیجن کی دستیابی۔ادوایات کی بہتر سربراہی اور آکسیجن جیسے ضروری چیزیں اور انسانی وسائل کی تنصیبات کرے

سرکاری مراکز برائے وباء پر قابو:ہر ضلع میں ایک لازمی جس میں جانچ کی سہولتوں کے ساتھ عملے کا تقرر‘ نگرانی کرنے والی کمیٹیوں کی تشکیل عمل میں لائی جائے تاکہ عالمی وباء کے متعلق یومیہ اساس پر رپورٹ تیار کی جاسکے۔ یہ وقت ایکشن کا ہے! مذکورہ تلنگانہ حکومت کو ضرورت ہے کہ وہ تیزی

سے جانچ اور عالمی وباء کے لئے موثر صفائی کے نظام کو قطعیت دے۔

انگریزی ظہیر الدین علی خان اور نہاد امانی نے یہ مضمون لکھا‘ جس کا ترجمہ کیاگیاہے