عوام کی عدالت میں کوئی التواء نہیں

,

   

روزہ کھولا ہے‘ لڑائی کی کوئی منشاء نہیں ہے
کلکتہ۔انہوں نے کہاکہ خاموش دعائیہ اجتماعی اور روز کشائی کا عمل چہارشنبہ کی شب کیاگیا ہے۔کیونکہ چند گھنٹوں قبل سپریم کورٹ آف انڈیانے کہاتھا اس لئے کیدار پور کے نواب علی پارک میں یہ کام انجام دینے والی تین سو سے زائد خواتین کے ذہنوں میں شہریت (ترمیمی) ایکٹ (سی اے اے) ”سب سے اوپر“ تھا۔

مذکورہ ایکٹ کے خلاف دائر کردہ درخواست پر سنوائی کو سپریم کورٹ نے پانچ ہفتوں تک ملتوی کردیا ہے۔

نواب علی پارک میں اس وقت خواتین کا مزاج تکلیف میں تھاجب وہ افطار کررہے تھے مگر اس کا ذکر انہوں نے حالت روزہ میں دن بھر نہیں کیا۔

سلائی کی کلاسس چلانے والے 24سالہ صنوبر جس کو اپنا کام بند کرنا پڑا تھا نے کہاکہ ”ہم روکنے والے نہیں ہیں۔ یہ تحریک جاری رہے گی۔

ہم اپنے حقوق کی لڑائی لڑیں گے“۔ ایک خاتون نے کہاکہ اس ملک کے ہر کونے میں ایک شاہین باع ہونا چاہئے۔

انہوں نے چلاکر کہاکہ”جب تک ہماری آواز سننے کے لئے حکومت مجبور نہیں ہوجاتی تب تک ہر محلہ سے احتجاج کی صدائیں بلند ہونی چاہئے“۔

کچھ عورتیں معمر‘ جوان اور گود میں بچوں کو لئے اتوار کے روز سے مذکورہ پارک میں اکٹھا ہے تاکہ جمہوریت بچاؤ تحریک کو انجام دیں سکیں۔

اپنے نو ماہ کے معصوم کے ساتھ پارک کو آنے والی تمنا احمد نے امکانی این آرسی کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ ”ہمارے آباو اجداد نے اس ملک کا انتخاب کیا‘ جس کی وجہہ سے ہم یہاں پر ہیں۔ اب ہم کیوں دستاویزات پیش کریں؟“۔

تمنا نے استفسار کیاکہ ”یہ حکومت بیٹی بچاؤ‘ بیٹی پڑھاؤ کی باتیں کرتی ہے۔ مگر ملک میں تشکیل دی گئی غیر یقینی صورتحال کاجائزہ لیں۔ میں اپنی بیٹی کے لئے کیامستقبل تیار کررہی ہوں؟“۔

کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ حکومت نوٹ بندی کے نفاذ میں ناکام ہوگئی تھی اور اب نئے شہریت قانون میں اس کو ناکامی کا سامنا ہے۔

احتجاج میں شامل26سالہ شگفتہ ناہید نے کہاکہ”نوٹ بندی کے دوران ہمارے پاس پیسہ تھا مگر ہم اس کا استعمال نہیں کرسکتے تھے۔

ہم اپنے بچوں کی اسکول فیس ادا کرنے سے قاصر تھے کیونکہ کرنسی نوٹ درست نہیں تھے۔ ہماری رقم کو نکالنے کے ہمیں طویل قطاروں میں کھڑے رہنا پڑا تھا۔

اب ہم مذکورہ سی اے اے اور این آرسی کے ساتھ سڑکوں پر نکل گئے ہیں۔ ہمیں احتجاج کرنے کے لئے مجبور کیاگیاہے۔ کس حد تک ہم برداشت کرسکتے ہیں؟“

۔پارک کے اندر ان لوگوں نے مہاتما گاندھی اور بی آر امبیڈکر کی تصویریں لگائیں۔یہاں پر جے این یو اسٹوڈنٹ یونین کی صدر ایشا گھوش کی خون میں لت پت تصویر بھی لگائی گئی ہے۔

ان میں کئی پہلی مرتبہ احتجاج میں شامل ہونے والے لوگ بھی تھے‘ شہناز بیگم 55‘ والکر کے ساتھ احتجاج کے مقام پر پہنچے۔ چار سال قبل اسکوٹر سے وہ حادثہ کاشکار ہوئی تھیں۔

انہوں نے کہاکہ ”میں یہاں مرجاؤتو اس کے لئے بھی میں تیارہوں“۔کارپوریشن ہلت ورکر کے طور پر کام کرنے والے تین بچوں کی ماں گلناز ہیں۔

صبح اٹھ بجے وہ کام پر جاتی ہیں۔ موقع پر دورے کرنے کے بعد گھر واپس لوٹ کر بچوں کے لئے پکوان کرتی ہیں۔

شام تک نواب پارک پہنچ جاتی ہیں۔کچھ عورتیں کہتی ہیں کہ سڑک بند کردیں گے مگر کچھ کا کہنا ہے کہ پارک میں بیٹھیں اور اپنی آواز کو بلند کریں۔