عید الاضحی کے بعد بھی نکاح کی تقاریب کے امکانات موہوم

,

   

ذی الحجہ اور ہندوؤں کا شراون مہینہ مقدس ، وائرس کے باعث تقاریب سے محروم
حیدرآباد۔ عید الاضحی کے بعد شروع ہونے والے مسلم خاندانوں میں نکاح کے موسم میں کوئی جوش و خروش نہیں دیکھا جائیگاہے اور نہ ہی شہریوں میں بڑی تقاریب کے انعقاد کا رجحان پایا جانے لگا ہے ۔ دونوں شہروں حیدرآباد و سکندرآباد میں ذی الحجہ کے آغاز کے ساتھ شادیوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا تھا اور عید الاضحی کے بعد شادیوں کا سیزن ہوا کرتا تھا لیکن ملک بھر کے علاوہ دنیا میں جاری کورونا وائرس کی تباہ کاریوں کے سبب کئی خاندانوں کی جانب سے نکاح تقاریب کو ملتوی کیا جانے لگا ہے اور یہی صورتحال غیر مسلموں میں بھی دیکھی جارہی ہے کیونکہ ہندو پنڈتوں کے مطابق 23 جولائی سے 14 اگسٹ کے دوران شروان کے مہینہ میں کئی اہم مہورت ہیں جن میں ہندو خاندان شادیوں کو ترجیح دیتے ہیں لیکن اس کے باوجود ان ایام میں کوئی بڑی تقاریب کے انعقاد کے سلسلہ میں غور نہیں کیا جارہا ہے اور نہ ہی اس بات پر توجہ دی جا رہی ہے کہ شادی کی تقریب ملتوی کرنے کے کیا نتائج ہوں گے۔

ریاست تلنگانہ میں اس مدت کے دوران لاکھوں شادیاں ہوا کرتی تھیں لیکن موجودہ حالات میں ہزاروں شادیوں کا بھی کوئی امکان نہیں ہے۔شادیوں کی تقاریب کے عدم انعقاد تواریخ ملتوی کئے جانے کے اثرات شادی سے جڑے دیگر اشیاء کی خرید و فروخت بالخصوص سونے کی فروخت پر کافی منفی اثرات دیکھے جارہے ہیں۔ شہر حیدرآباد کے سرکردہ جوہریوں کا کہنا ہے کہ حیدرآباد میں شراون کے دوران جو فروخت ریکارڈ کی جاتی تھی اس اعتبار سے جائزہ لیا جائے تو 20تا30 فیصد بھی فروخت نہیں ہے جو کہ سونے کے تاجرین کیلئے تشویشناک صورتحال ہے۔ شہر حیدرآباد و سکندرآباد میں موجود 80 فیصد شادی خانو ںمیں کوئی تقاریب منعقد نہیں کی جارہی ہیں لیکن بعض چھوٹے شادی خانو ںمیں شادیوں کی تقاریب کے انعقاد کے اقدامات کئے جا رہے ہیں اور ان تقاریب میں بسااوقات منظورہ تعداد سے زیادہ مہمان بھی شرکت کر رہے ہیں لیکن بہت کم ایسی تقاریب منعقد ہورہی ہیں۔عید الاضحی کے بعد حیدرآباداور تلنگانہ کے علاوہ ریاست کرناٹک میں بھی مسلم شادیوں کا موسم ہوتا ہے لیکن اس مرتبہ شادیوں کا موسم ہمیشہ کی طرح نہیں ہوگا بلکہ کئی برسوں کے بعد ان ایام میں شادیوں کی رونقیں ماند نظر آئیں گی ۔ محدود تعداد کے ساتھ خصوصی مہمانوں کو مدعو کرتے ہوئے ہوٹلوں کے بینکویٹ ہالس میں منعقد ہونے والی شادی کی تقاریب کے انعقاد میں بھی احتیاط سے کام لیا جارہا ہے اورکہا جا رہاہے کہ حالیہ عرصہ میں بڑی دعوتوں کے اہتمام کے علاوہ سالگرہ اور دیگر تقاریب کے سبب جوصورتحال پیدا ہوئی ہے اس صورتحال سے نمٹنے میں ہونے والی پریشانیوں کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جار ہاہے کہ کئی داعی جو اپنے خاندان میں شادیوں کی تقاریب کے اہتمام کی تیاریوں میں مصروف تھے وہ بھی اپنا منصوبہ ترک کرچکے ہیں ۔شادیوں سے جڑے کاروبار کے ذمہ داروں کا کہناہے کہ جب تک حالات معمول پر نہیں آجاتے اس وقت تک شادیوں کی تقاریب میں رونق کی واپسی کا گمان بھی نہیں کیاجاسکتا کیونکہ شادیوں میں بغلگیر ہوکر مبارکباد دینے کے علاوہ کافی گھنٹوں تک بغیر کسی سماجی فاصلہ کے بیٹھنے کا رواج عام ہے جو کہ حالات معمول پر آنے تک ممکن نہیں ہے۔