غربت اور حکومت کے دعوے

   

اگر یہ جانتے چن چن کے ہم کو توڑیں گے
تو گل کبھی نہ تمنائے رنگ و بو کرتے
ملک میں یکے بعد دیگرے قائم ہونے والی تمام ہی حکومتیں غربت کو ختم کرنے کیلئے کام کرنے کے دعوے کرتی رہی ہیں تاہم صورتحال ہمیشہ ہی اس کے برعکس رہی ہے اور ملک میں غربت کا خاتمہ تاحال ممکن نہیں ہوسکا ہے ۔ کئی مواقع ایسے آئے ہیں جب حکومتوں کی جانب سے اس سلسلہ میں اقدامات بھی ضرور کئے گئے ہیں لیکن اس کے نتائج وہ نہیں برآمد ہوئے جس کی توقع کی جا رہی تھی ۔ اس کے علاوہ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ غربت کے خاتمہ میں حکومت نے لگاتار اتنی سنجیدگی نہیں دکھائی جتنی درکار تھی ۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان جیسے وسیع و عریض ملک میں بے تحاشہ آبادی غربت کی سطح سے بھی نچلی زندگی گذارتی ہے ۔ لوگ دو وقت کی روٹی کیلئے مجبور ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ اب مرکزی حکومت نے ادعا کیا ہے کہ گذشتہ نو برسوں میں لگ بھگ 25 کروڑ افراد کو خط غربت سے اوپر لایا گیا ہے ۔ یہ سرکاری دعوے ہیں اور ان کا آزادانہ جائزہ تاحال کسی نے لیا نہیں ہے ۔ تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ خود مرکزی حکومت یہ دعوی کرتی ہے کہ اس کی جانب سے ملک بھر میں 80 کروڑ افراد کو ماہانہ پانچ کیلو مفت راشن دیا جا رہا ہے ۔ یہ دونوں دعوے ایک دوسرے سے تضاد رکھتے ہیں اور اس میں یہ اندازہ لگانا مشکل ہوگیا ہے کہ کون سا دعوی درست ہے اور کس دعوے میں سچائی نظر نہیں آتی ۔ کورونا کے دور میں مرکزی حکومت کی جانب سے ملک میں غریبی کی سطح سے نچلی زندگی گذارنے والوں کو ماہانہ پانچ کیلو مفت راشن فراہم کرنے کا اعلان کیا گیا تھا ۔ اسی اقدام کے ذریعہ مرکزی حکومت مختلف انتخابات میں سیاسی فائدہ بھی حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہے ۔ اترپردیش جیسی ریاست کے انتخابات میں بھی پانچ کیلو مفت راشن کا مسئلہ بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہے ۔ ایک طرف مفت راشن دینے کا دعوی کیا جا رہا ہے تو دوسری جانب 25 کروڑ افراد کو غریبی کی سطح سے اوپر لانے کی بات بھی کی جا رہی ہے ۔ یہ دونوں متضاد دعوے ہیں اور ان پر صورتحال کو واضح کیا جانا چاہئے ۔ حکومت نے یہ بھی واضح نہیں کیا ہے کہ اس نے کس طرح کے اقدامات کے ذریعہ کروڑہا افراد کو غریبی کی سطح سے اوپر لانے میں کامیابی حاصل کی ہے ۔
ملک میں غریبی کی شرح اور غریبوں کی تعداد کا مسئلہ اہمیت کا حامل ہے ۔ یہ ملک کی ترقی کا تعین کرنے میں بھی اہمیت کا حامل رہا ہے ۔ ایسے میں حکومت کو یہ واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ ہندوستان جیسے ملک میں جملہ ایسے کتنے کروڑ افراد یا خاندان ہیں جو غریبی کی سطح سے نچلی زندگی گذار رہے ہیں۔ اب تک حکومت نے جن افراد کو غریبی کی سطح سے اوپر لانے میں کامیابی حاصل کی ہے ان میں کس کو کس طرح کی سرکاری امداد سے فائدہ پہونچا ہے ۔ کس سرکاری اسکیم کے ذریعہ ان کے حالات زندگی میں تبدیلی آئی ہے ۔ حکومت کو یہ بھی واضح کرنا چاہئے کہ گذشتہ 10 سال قبل ملک میں غریبوں کی تعداد کتنے کروڑ تھی اور اب حکومت کی جانب سے25 کروڑ افراد کو غریبی کی سطح سے اوپر لانے کے بعد کتنے افراد اب بھی اس سطح سے نیچے زندگی گذارنے پر مجبور ہیں۔ حکومت کی جانب سے غریبی کی سطح کو کم کرنے اور مستحق افراد کو خط غربت سے اوپر لانے کیلئے کیا کچھ منصوبوں پر عمل کیا گیا ہے اور آئندہ کیلئے اس کے پاس کیا کچھ حکمت عملی ہے ۔ محض دعوے کرتے ہوئے خود اپنی کامیابیوں کے دعوے کردینے سے صورتحال پر کوئی مثبت اثر نہیں ہوسکتا ۔ حقیقت میں اگر حکومت نے یہ کردکھایا ہے جس کا دعوی کیا جا رہا ہے تو یہ ایک بڑی کامیابی بھی قرار دی جاسکتی ہے ۔ تاہم پھر یہ بھی وضاحت کرنی ضروری ہوجائے گی کہ وہ کون سے 80 کروڑ افراد ہیں جن کو حکومت ہر ماہ پانچ کیلو مفت راشن سربراہ کر رہی ہے ۔ ایسا سلسلہ جاری رکھنے کی ضرورت کیا رہ گئی ہے ۔
ساری دنیا نے دیکھا کہ کورونا دور میں کس طرح کے حالات سے انسانیت کو گذرنا پڑا ہے ۔ دنیا کے بیشتر ممالک میں عوام کو انتہائی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔ ہندوستان بھی اس سے محفوظ نہیں رہا ہے ۔ ہمارے ملک میں بھی لوگ کس طرح سے غربت و افلاس کا شکار ہوئے ہیں۔ کس طرح سے لاکھوںا فراد اپنے روزگار سے محروم ہوگئے تھے ۔ اس کے باوجود اگر حکومت کی جانب سے اس طرح کے دعوے کئے جا رہے ہیں تو اسے تمام اعدادو شمار ملک کے سامنے پیش کرنے ہونگے اور یہ بھی واضح کرنا ہوگا کہ اب کتنے کروڑ افراد کو ماہانہ پانچ کیلو مفت راشن دیا جا رہا ہے ۔ یہ تعداد کم ہوئی ہے یا نہیں۔ اگر نہیں ہوئی تو کیوں نہیں ہوئی ؟ ۔