غزوہ احد میں لشکر اسلام کی ترتیب یوں تھی کہ سامنے مدینہ منورہ اور پیچھے کوہ احد تھا

   

اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا کا تاریخ اسلام اجلاس،ڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی کا خطاب
حیدرآباد ۔ 27 ۔ جنوری : ( پریس نوٹ) : غزوہ احد میں معرکہ آرائی سے قبل منافقین کی جماعت واپس چلے جانے کے بعد لشکر اسلام کی تعدادسات سو تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم لشکر اسلام کی جانب متوجہ ہوئے اور صفوں کی ترتیب اس طرح فرمائی کہ سامنے مدینہ منورہ اور پیچھے احد تھا۔ رسو ل اللہؐ نے پچاس تیر اندازوں کا ایک دستہ جبل احد کے پیچھے ٹھہرایا تا کہ قریش پیچھے سے حملہ نہ کر سکیں اور حضرت عبد اللہ بن جبیرؓ کو اس دستہ کا امیر مقرر فرمایا اور حکم دیا کہ اگر ہم کو مشرکین پر غالب ہوتے دیکھو تب بھی یہاں سے نہ ہٹنا اور اگر مشرکین کو ہم پر غالب ہوتے دیکھو تب بھی اس جگہ سے نہ سرکنا اور نہ ہماری مدد کے لئے آنا۔قریش نے روایتی انداز سے مسلمانوں کے درمیان نزاع پیدا کرنے کی کوشش کی اور انصاریوں کے پاس کہلا بھیجا کہ ہمیں تم لوگوں سے کوئی مخاصمت نہیں ہمیں ہمارے قریش کے قبائل سے تعلق رکھنے والوں (یعنی مہاجرین) سے لینا دینا ہے اگر تم لوگ درمیان سے ہٹ جائو تو ہم تمہاری طرف رخ بھی نہیں کریں گے۔ یہ سن کر تمام انصاریوں نے جواب دیا کہ رشتہ ایمان کے باعث ہم اور مہاجرین ایک ہیں ۔ تمہیں ہمارے رسول کریم ؐ کے ساتھ کی ہوئی زیادتیوں کی بڑی بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔اس پر قریش جھلا گئے اور لڑائی کا آغاز ہو گیا۔ڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی ڈائریکٹر آئی ہرک نے آج صبح 9 بجے ’’ایوان تاج العرفاء حمیدآباد‘‘ واقع شرفی چمن ،سبزی منڈی قدیم میں ان حقائق کا اظہار کیا۔وہ اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل (انڈیا) آئی ہرک کے زیر اہتمام منعقدہ 1339ویں تاریخ اسلام اجلاس کے پہلے سیشن میں سیرت طیبہ کے تسلسل میں واقعات قبل غزوہ احد اور ان کے اثرات پر اہل علم حضرات اور سامعین کرام کی کثیر تعداد سے شرف تخاطب حاصل کر رہے تھے۔ بعدہٗ 11-30 بجے دن جامع مسجد محبوب شاہی مالاکنٹہ روڈ روبرو معظم جاہی مارکٹ میں منعقدہ دوسرے سیشن میں ایک مہاجر ایک انصاری سلسلہ کے تحت صحابی رسولؐ اللہ حضرت سعد بن مالک ؓؓ کے احوال شریف پر مبنی حقائق بیان کئے۔ قرا ء ت کلام پاک، حمد باری تعالیٰ،نعت شہنشاہ کونین ؐ سے اجلاس کا آغاز ہوا۔ڈاکٹرسید محمد حمید الدین شرفی نے سلسلہ بیان جاری رکھتے ہوے ایک مہاجر ایک انصاری سلسلہ کے تحت بتایا کہ صحابی رسول اللہ حضرت سعد بن مالکؓ کو صرف تیرہ برس کی عمر میں جذبہ ایمان اور راہ حق میں قربان ہونے کا متاثر کن ذوق و شوق غزوہ احد میں لے آیا۔

وہ اپنے والد حضرت مالکؓ بن سنان کے ساتھ مجاہدین کی صف میں شامل و شریک ہو گئے تھے انھیں اپنے مضبوط اور دراز بازوں پر بہت اعتماد تھا لیکن رسول رحمت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت سعدؓ کی کمسنی کے باعث شریک معرکہ ہونے کی اجازت نہ دی البتہ بعد میں انھیں معرکہ مصطلق میں شرکت کا موقع عطا ہوا۔ پھر انھوں نے کئی سرایا و غزوات میں اپنی سیف کے جوہر دکھاے حدیبیہ، خیبر، فتح مکہ، حنین، تبوک اور اوطاس کے مواقع پر حضرت سعدؓ بن مالک نے اپنی بہادری، استقامت، حوصلہ مندی، شجاعت، ثابت قدمی اور مہارت حرب کے ذریعہ اپنی موجودگی کا بھر پور احساس دلایا اور گہرا اثر چھوڑا۔ حضرت سعد بن مالکؓ قرآن مجید کے جید قاری اور واقف معانی و معارف اور صاحب قرآنؐ کے خلق عظیم کے ہر نورانی پہلو کا نہایت گہرا مطالعہ و مشاہدہ کرنے والی شخصیات میں ممتاز تھے یہی سبب ہے کہ وہ صحابہ کرام میں کتاب و سنت کے زبردست عالم مانے جاتے تھے ان کی مرویات گیارہ سو سے متجاوز ہیں وہ مقررہ اوقات میں درس دیا کرتے تھے ان کے حلقہ درس میں لوگوں کا کثیر ہجو م ان کے تبحر علمی کی بجاے خود دلیل ہے۔ ان کی فقاہت اور علمی رتبہ کا معاصرین کو اعتراف تھا۔ امیر المومنین حضرت عمر فاروق ؓ اور امیر المومنین حضرت عثمان غنی ؓ نے اپنے اپنے ادوار خلافت میں انھیں فتویٰ دینے پر مامور کیا تھا۔ آپ کی زندگی سادگی کا نمونہ تھی تاہم یتیموں کی پرورش پر خوب خرچ کیا کرتے کشادہ دست تھے سوال کرنے والوں کو خالی لوٹانے سے احتراز کیا کرتے تھے انصار مدینہ میں دولت مند اور صاحب ثروت تھے۔ 74ھ میں بہ عمر 84 سال وفات پائی۔ بقیع شریف میں آخری آرام گاہ بنی۔