غزہ تجھے سلام

   

عثمان شہید، ایڈوکیٹ
غزہ مشرق وسطی کے شہروں کی دلہن تجھے سلام ، تیری وادی ،حوصلہ مندی، جرأت، بہادری ، تیرے بچوں کی قربانی اور عورتوں کی جرأت، بزرگوں کی وطن سے محبت ،خواتین کی بے پناہ ہمت،شیرخوار بچوں کی قربانیاں ، اپنے لہو سے تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کررہی ہیں۔ ناتواں غزہ ایک بار پھر اپنے لہو سے انمٹ داستاں تحریر کررہی ہے۔ ایک ایسی امت کیلئے جس کا خون سفید ہوچکا ہے۔ جو 57 ممالک میں برسراقتدار رہتے ہوئے بھی ایک چھوٹے سے ملک اسرائیل کا مقابلہ کر کے چاہے تو منٹوں میں شکستِ فاش میں تبدیل کرسکتے ہیں۔ آج خاموش کہانی کا عنوان بن چکے ہیں، صرف مصلحت کا شکار ہیں، انہیں اندیشہ ہے کہ اگر انہوں نے ظلم کے خلاف یا اسرائیل کے خلاف ذرا برابر بھی آواز اٹھائی تو اپنے اقتدار سے محروم ہوجائیں گے اور ان کی عیاشی کے تمام دروازے بند ہوجائیں گے۔ اقوام متحدہ میں 1947 میں فلسطین اور یہودیوں کے درمیان تقسیم کرنے کی قرارداد پیش کی گئی تو اس رائے شماری میں چند مخصوص ممالک کو رائے دہی کا حق دیا گیا۔ اس رائے شماری میں تمام رکن ممالک کو شامل نہیں کیا گیا۔ اس کے باوجود یہ قرار داد اتنی بیہودہ تھی اس کی مخالفت میں پانچ اور تائید میں صرف برطانیہ، امریکہ اور روس کے ووٹ آئے۔ قرارداد منظور کرانے کیلئے تین ووٹ کی ضرورت تھی چنانچہ بدترین دھاندلی کرتے ہوئے رائے شماری میں فلپائن،ہنگری اور لائبریا کو مالی رشوت دے کر شامل کیا گیا۔ ایسی فراڈ قرارداد کے منظور ہونے کے بعد 14؍مئی 1948 کو اسرائیل جیسی ناجائز مملکت کو وجود میں لایا گیا۔ جبکہ روس نے بھی اسرائیل کی تائید کی۔ برطانیہ تو ایسی قرارداد کا بانی تھا۔ یوں تو عالم اسلام میں شور مچ گیالیکن یہ احتجاج بے معنی تھا۔ اس وقت فلسطین میں 94 فیصد مسلمان تھے اور 6 فیصد اسرائیل کی آبادی تھی۔ لیکن قرارداد کی منظوری کے بعد یہ اعلان کیا گیا کہ یہودی 33 فیصد ہیں۔ ایسا کہناآنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف تھا۔ نومبر 1948ء میں اسرائیل کا رقبہ 7993 تھا اور اس کے بعد صہیونی مملکت نے اطراف کے مسلم مملکتوں کو تباہ وتاراج کرتے ہوئے اپنے علاقہ کو وسعت دی۔ شام کے بڑے حصہ پر قبضہ کرلیا۔ حتی کہ 5؍جون 1948ء کو اسرائیل نے بیت المقدس میں بھی قبضہ کرلیا۔ یوں فلسطینیوں کا وطن ہوکر بھی ان کا نہیں رہا۔ فلسطینیوں کو مارا گیا، پیٹا گیا، ظلم وستم کا نشانہ بنایا گیا، لہولہان کیا گیا، شہید کیا گیا، قیدی بنایا گیا، کچلا گیا، غریب الوطن بنایا گیا، ایسا قیدی بنایا گیا جو قانون سے محروم کردیئے گئے، غزہ کے شہریوں پر ظلم وستم کی حد رواں رکھی گئی، انہیں پابازنجیرکیا گیا، مارپیٹ کی گئی،پھانسی پر چڑھایا گیا،زخموں کا علاج کرانے کے لئے دواخانہ پہنچے تو دواخانوں پر بھی نہتے زخموں سے چور لہولہان فلسطینیوں پر بمباری کی گئی جن میں معصوم بچے اور عورتیں بھی شامل ہیں۔ آج 30 ہزار سے زیادہ فلسطین کے باشندے مارے جاچکے ہیں ،پھر بھی دوسرے ممالک کے پیشانی پر بل نہیں پڑے، ان کا ضمیر نہیں جاگا۔
آج دنیا بھر میں اسرائیل کے خلاف مظاہرے ہورہے ہیں، حماس سے ہمدردی ہورہی ہے۔ بولیویا جیسے چھوٹے ملک نے بھی اسرائیل کو دہشت گرد قرار دیا۔ اسی طرح ونزویلابرازیل اور چلی نے اسرائیل سے تعلقات توڑ لئے۔ میکسیکو کے عوام بھی مطالبہ کررہے ہیں کہ اسرائیل سے تعلقات توڑ دو۔ صہیونی وزیراعظم کی جاہلانہ اقدام کی وجہ سے صہیونی فنکاروں اور گلوکاروں کو حماس کی پشت پر لاکھڑا کیا۔ اسپین میں نامور فنکاروں نے خط لکھا جس میں غزہ میں نسل کشی رکوانے کا مطالبہ کیاگیا۔ بالی ووڈ کی گلوکارائیں میڈونا اور ریحانہ نے بھی فلسطین کی تائید کی اور آزادی کا مطالبہ کررہے ہیں۔ سیلیناجیسی مشہور اداکارہ غزہ کیلئے دعاگو ہے۔فرانس میں بھی غزہ کے حق میں نعرے بلند ہورہے ہیں۔ اسپانیا میں بھی اہل غزہ کیلئے دعا ہورہی ہے۔ غرض ایک عالم غزہ کے ساتھ ہوگیا ہے لیکن اسرائیل کو شرم نہیں آتی۔ اسرائیلی مظالم ایسے دردناک ،کربناک اور دل ہلادینے والے ہیں کہ انہیں دیکھ کر اور سن کر مسلمانوں کی شاید ہی کوئی آنکھ روئی نہ ہو۔ اور شاید ہی کوئی دل نہ تڑپا ہو۔ آج اسرائیل اپنی طاقت کے نشہ میں اور امریکہ کی پشت پناہی کی وجہ بڑی بے غیرتی کا مظاہرہ کررہا ہے۔ غزہ کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کا اعلان کررہا ہے۔ وہ اس حقیقت کو بھول چکا ہے کہ
توحید کی امانت سینوں میں ہے ہمارا
آساں نہیں مٹانا نام ونشاں ہمارا
صرف پانچ لاکھ مسلمانوں نے دو لاکھ رومن فوج کو جو لوہے میں غرق تھی شکست فاش دی تھی۔ تاریخ آج بھی حیران ہے کہ یہ واقعہ خالدبن ولیدؓ کی قیادت میں کیسے رونما ہوا۔ وہ کونسی طاقت تھی جس نے مسلمانوں کی مدد کی۔ ٹھیک ایسے ہی افریقہ کے شاہین زادے تاریخ بن زیاد نے 700 سپاہیوں کے ساتھ شہنشاہ راڈرک کی ایک لاکھ فوج کو دھول چاٹنے پر مجبور کردیا۔ اس نے اپنی کشتیاں جلاکر اپنے سپاہیوں پر واپسی کے راستے بند کردیئے۔ فتح ایسے ہی بہادروں کی منتظر تھی اور فتح ہوئی۔ 16 سالہ شہزادہ کا کہیں اور فتح استقبال کرنے تیار تھی۔ محمد بن قاسم نے سندھ کو فتح کرکے انصاف اور اخوت پیداکرنے کا نیا ڈھنگ دنیا کو بتلادیا، اس طرح زمانہ مردانگی کے نئے اصولوں سے واقف ہوا۔ میں پوچھتا ہوں وہ کون تھے جنہوں نے تاریخ میں نئے باب کا اضافہ کیا تھا۔ وہ شمشیروں کو وقت نے کیوں زنگ آلود کردیا، وہ تلواریں کہاں گئی جن کی دہار مندمل ہوگئی۔ آج مسلمانوں کی اکثریت موت سے ڈر رہی ہے اور دولت کی غلام ہوچکی ہے جبکہ ہر فرد واقف ہے کہ موت آنی ہے۔ ؎
موت سے کس کو رستگاری ہے
آج وہ کل ہماری باری ہے
آج نوجواںکی اکثریت تن آسانی کے جویابنتے جارہے ہیں۔ دولت کی دیوی کے غلام ہورہے ہیں۔ ان کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ غزہ تیرے ہاتھوں کی مہندی کو صبح قیامت تک اللہ باقی رکھے، جب تک سورج چاند میں چراغ روشن رہیں گے تو صفحۂ ہستی پر باقی رہے گا۔ انشاء اللہ تیرے ارادے اٹل ہیں، اللہ تعالیٰ تیرے سہاگ اقتدار کو باقی رکھے، تیرے پیروں کے پازیب کو تادم آخر جگمگاتا رکھے، تیرے دامن میں پھول کھلتے رہیں، تیرے گلشن میں غنچے مہکتے رہیں، تیرے معصوم بچے کلیاں بن کر چٹکتے رہیں ان کی قربانیاں ضائع نہیں جائیں گی۔تیرے دریائوں کی لہریں رواں رہیں گی۔ تیرے سمندر میں لہریں بہتی رہیں گی، تیرے سمندر میںموجیں رواں دواں رہیں گی، دشمن فنا ہوجائے گا۔(انشاء اللہ)