غوثِ اعظم کی حیات و کارنامے

   

ڈاکٹر سید حسام الدین
آنحضرت محمد مصطفیٰ صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم کی ولادت مبارکہ کے بعد نبوت کے دروازے بند ہوگئے اسی لئے آپ ﷺکو خاتم النبیین کہا جاتا ہے ۔ لیکن آپؐ کے پردہ فرمانے کے بعد اشاعت دین اور اسلامی تعلیمات کا سلسلہ مسدود نہیں ہوا آپؐ کے بعد اس مشن کو صحابہ کرام ، تابعین اور تبع تابعین پھر اولیاء اﷲ نے اپنے ذمہ لیااور اس ذمہ داری کو بحسن و خوبی انجام دیتے رہے ۔
حضرت غوث اعظم دستگیرؓ جو کہ مشائخین کے شہنشاہ شیخ طریقت امام شریعت ، پیروں کے پیر اور اولیاء کے سردار کے القاب سے جانے جاتے ہیں وہ بزرگ ہستی ہے جنھوں نے سرکار دوعالم ﷺ کی شریعت کو زندہ اور روشن کرکے آپ کی نیابت کا پورا پورا حق ادا کیا ۔
حضرت غوث پاک کا سلسلہ والد کی طرف سے امام حسنؓ اور والدہ کی طرف سے امام حسینؓ سے ملتا ہے ۔ اس طرح آپ نجیب الطرفین سادات کے فرد فرید تھے ۔

آپ نے چار شادیاں کیں جن سے انچاس (۴۹) بچے پیدا ہوئے جن میں سے ۲۰ لڑکے اور باقی لڑکیاں تھیں۔ لڑکوں میں سے چند کے نام اس طرح ہیں۔ شیخ حافظ عبدالرزاق ، شیخ عبدالوہاب ، شیخ عبدالعزیز، شیخ عبدالجبار ، شیخ عبدالغفور ، شیخ عبدالغنی ، شیخ صالح ، شیخ محمد، شیخ موسیٰ ، شیخ عیسیٰ ، شیخ ابراہیم اور شیخ یحییٰ ۔
حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؓ کو کم عمری ہی سے علم کے حصول کی جستجو تھی چنانچہ آپ بغداد روانہ ہوگئے ۔ حضرت نے اپنے زمانہ کے جید علماء اور بزرگوں سے علم حاصل کیااور علم تفسیر ، علم قرأت ، علم حدیث ، علم فقہ ، علم کلام ، علم لغت ، عل ادب ، علم نجو ، علم مناظرہ ، علم عروض ، علم انساب ، علم تاریخ ، علم فراست وغیرہ میں کمال حاصل کیا ۔ تحصیل علم کے دوران آپ کو بے انتہا تکالیف کا سامنا کرنا پڑا لیکن آپ نے صبر کا دامن نہیں چھوڑا اپنے کام میں لگے رہے ۔
حصول علم کے دوران آپ نے جو مشقتیں جھیلیں ، مجاہدات اور ریاضتیں کیں ان کے بارے میں آپ فرماتے ہیں ’’میں برسوں بغداد کے محلے کرخ کے ویرانے اور غیرآباد مکانوں میں رہا ان دنوں سوائے کوندلوں( ایک قسم کی آبی بوٹی ) کے کچھ نہ کھاتا ۔

حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؓ عبادات و ریاضت اور مجاہدات اور تزکیہ نفس اور باطن کی تکمیل کے بعد حضرت شیخ ابوسعید مبارک مخرمی کے ہاتھوں بیعت کی اور ان کے حلقہ ارادت میں شامل ہوگئے ۔ آپ کثیرالتصانیف تھے ۔ آپ کی مشہور کتابوں میں غنیۃ الطالبین اور فتوح الغیب ہے اس کے علاوہ آپ کی ایک اور تصنیف کا نام فتح ربانی ہے ۔ تصانیف کے علاوہ ایک قصیدہ بھی ہے جو قصیدہ غوثیہ ‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ جس وقت آپ نےاپنی تعلیمات اور مواعظ کا اغاز کیا یہ وقت عجیب کشمکش کا دور تھا ۔ اس کشمکش کے دور میں آپ نے مسلمانوں کے عقائد کی درستگی کے لئے رشد وہدایت کا دیا جلایا اور اپنے مواعظ کے ذریعہ عقائد باطلہ کی بیخ کنی کی ۔
حضرت غوث اعظم ؓ حق و صداقت کا مجسمہ تھے ۔ سچائی اور حق گوئی بچپن ہی سے آپ کی سرشت میں داخل تھی ۔ حق گوئی کی ابتداء اس مشہور واقعہ سے منسوب ہے جس کی بدولت گم کردہ راہ ڈاکو آپ کے سامنے سپر ڈال دیئے اور اپنے گناہوں سے توبہ کی ۔
آپ کی مجالس وعظ میں امیر ، غریب ، وزراء اور امراء سب ہی شریک ہوتے ۔ اپنے خطبات میں صاحب اقتدار لوگوں کی اصلاح کے لئے ان پر سختی سے تنقید کرتے ۔ حضرت کا لقب محی الدین تھا ۔ یقینا آپ نے سرکار دوعالم حضرت محمد مصطفی ﷺ کے دین کو جسے مسلمانوں نے فراموش کردیا ازسرنو زندہ کرنے کے لئے ہمہ تن مصروف ہوئے چنانچہ فرماتے ہیں ’’جناب رسول اﷲ ﷺ کے دین کی دیواریں پے در پہ گررہی ہیں اور اس کی بنیاد بکھری جاتی ہے ۔ اے باشندگان زمین آؤ اور جو گرگیا ہے اس کو مضبوط کریں اور جو ڈھے گیا ہے اس کو درست کردیں۔ یہ چیز ایک سے پوری نہیں ہوتی ، سب ہی کو مل کر کام کرنا چاہئے ۔ ( فیوض یزدانی )
احیاء دین ہی حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؓ کی زندگی کا اصل کارنامہ ہے ۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم احیاء دین کی جدوجہد شروع کریں جس کیلئے حضرت شیخ ساری زندگی مصروف رہے ۔