غیر اسلامی ملک میں دين اسلام كي معقولي تشريح كي ضرورت

   

نوجوان علماء سے توقعات

افسوس کی بات ہے کہ اسلامی قانون کی خوبیوں کا دنیا کو صحیح طورپر اندازہ نہیں ہوا اور اس کی ذمہ داری اس اُمت کے علماء پر عائد ہوتی ہے ۔ وہ اسلامی قوانین کے مختلف پہلوؤں اور خوبیوں کو دنیائے انسانیت کے سامنے روشناس کروائیں اور اسلام کی عظمت و علمی جلالت اور قانونی سیادت کا سکہ ان کے دلوں میں قائم کریں۔ تاحال اس اہم فریضہ کو بحسن و خوبی انجام دینے سے ہم قاصر رہے ہیں اور مستقبل قریب میں بھی نوجوان علماء کا بیدار ہونا اور اس سلسلہ میں کمرہمت کو کسنا بظاہر مشکل معلوم ہورہا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ دینی مدارس و جامعات میں اس قسم کی نہ ذہن سازی ہوتی ہے اور نہ ہی ان کے لئے مثالیں نظر آتی ہیں اور نہ ہی ان میں وہ ہمت مرداں پائی جاتی ہیں۔
کتاب ’’امام ابوحنیفہ کی تدوینِ قانونِ اسلامی‘‘ مولفہ ڈاکٹر محمد حمیداﷲ (سابق پروفیسر قانون عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد دکن ) پر حرف آغاز میں اسلامی قانون پر غیراسلامی حکومتوں کے ظلم و استبداد اور اسلامی قانون کے غلبہ پر بہترین علمی اور جامع نوٹ درج ہے جس کے چند اقتباسات درج ہیں:
’’بعینہ اسلامی قانون اور اسلامی دستور کو غیرمسلموں نے توڑ پھوڑ کر اس کی خوبیوں کو پوشیدہ رکھ کر مطعون کیا لیکن حق کا کسی نہ کسی طرح واضح ہونا قانون قدرت ہے اور آج حقیقت میں آنکھ دیکھ کر حیرت کررہی ہے کہ کسی طرح متمدن ملک کے قوانین بھی اسلامی قانون اور یہی اسلامی شریعت میں رہے ہیں۔ تمدن و ثقافت ، معیشت اور معاشرہ میں جو اصلاحات ہورہی ہیں وہ اکثر و بیشتر اسلام کی رہین منت ہیں‘‘ ۔
( حرف آغاز :امام ابوحنیفہ کی تدوینِ قانونِ اسلامی ص : ۷)
آج ہندوستان میں مسلمان اقلیت میں ہیں ، تعلیم اور روزگار میں دانستہ پسماندہ کیا جارہا ہے حتی کہ جان و مال کے لالے پڑرہے ہیں اور تو اور شریعت مطہرہ کے مسلمہ احکام و مسائل کو قانونی طورپر بدلنے کی ہر ممکنہ کوشش کی جارہی ہے اس کے برعکس دین اسلام ہی وہ پہلا مذہب ہے جس نے اپنی اقلیت کو نہ صرف جان و مال ، عزت و ابرو کا تحفظ دیا ہے بلکہ ہر قسم کی مذہبی عبادت و مراسم کی کھلی چھوٹ دی ہے ۔
’’ایک چھوٹی مثال لیجئے: غیرمسلم ذمیوں کے حقوق کے تحفظ کو اسلامی ممالک نظری اور عملی ہر دو پہلو سے اپنا فریضہ سمجھتے تھے اور ہیں۔ ذمیوں کو اسلامی قانون کے تحت یہ آزادی حاصل تھی کہ وہ اپنا مذہب اور قانون کے مطابق تصفیہ کریں۔ امام ماوردی کی مشہور کتاب ’’الاحکام السلطانیہ‘‘ کا ایک اقتباس ہے : ’’ذمی اپنے حقوق کا مقدمہ اپنے حاکم کے پاس لیجانے سے روکے نہ جائیں۔
(ماوردی: الاحکام السلطانیہ باب :۱۳ ص :۳۹)‘‘۔
خود ہند میں اسلامی عہد کی تاریخ شاہد ہے کہ جب تک مسلمانوں کا دور دورہ رہا ، ہندوؤں کے حقوق اور نزاعات کا تصفیہ پنڈت ہی دھرم شاستر کے موافق کیا کرتے تھے ۔ڈاکٹر ایشوری پرشاد جو زمانۂ حال کے مشہور مؤرخ ہیں اسلامی عہد کے تعلق سے لکھتے ہیں : ’’قانون کی نظر میں سب برابر تھے ، ہندؤوں اور مسلمانوں میں کچھ فرق روا نہ رکھا جاتا تھا ۔ ایسے تمام مقدمے جو قرضوں ، معاہدوں ، وراثتوں ، جائیدادوں اور زناکاری وغیرہ کے متعلق ہوتے تھے ان تمام کا تصفیہ ان ہی کے ہندو اپنی پنچایتوں میں کرتے تھے یا ثالثی مجلس اس کام کو انجام دیتی تھی اور بہترین کارکردگی سے یہ اپنا کام کرتی تھی ‘‘۔
( ایشوری پرشاد : میڈیول انڈیا صفحہ ۶۶)
ایک مسلمان جتنا زیادہ اپنے مذہب کا دلدادہ ہوتا ہے اتنا ہی وسیع النظر اور روادار ثابت ہوتا ہے لَکُمْ دِیْنُکُمْ وَلِیْ دِیْنِ (تمہارے لئے تمہارا دین اور میرے لئے میرا دین ) ۔اور ’’لااکراہ فی الدین‘‘ (دین کے بارے میں جبر نہیں) اس عمل کے دو ستون ہمیشہ رہے ہیں برخلاف اس کے دیگر مذاہب و مملکتوں نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جو ناانصافی برتی ہے اور برت رہے ہیں ایک خونی اور افسوسناک داستان پیش کرتی ہے ۔ خود حیدرآباد میں حیدرآباد کی مملکت نے صدیوں تک ہندؤوں کو دھرم شاستر سے مستفید ہونے کا موقعہ بالالتزام پہنچایا لیکن ’’پولیس ایکشن‘‘ کے چند ہی دنوں بعد مسلمانوں کے تعلق سے مفتی صدارت العالیہ کا عہدہ اور عدالت دارالقضاء کو برخواست کردیا گیا۔ یہ ایک ادنیٰ مثال ہے ۔ ( حوالۂ مذکورہ ص : ۸)
اسلامی حکومتوں نے اپنی اقلیتی رعایا کے حقوق کا تحفظ جس انداز میں کیا ہے وہ ساری انسانیت کے لئے مشعل راہ ہے۔ قبیلہ بکر بن وائل کے ایک مسلمان نے حیرہ کے ایک عیسائی کو مار ڈالا تھا ، حضرت عمرؓ کو اس کی اطلاع دی گئی ۔ انھوں نے جواب دیا کہ ’’قاتل کو مقتول کے وارثوں کے حوالہ کردیا جائے ‘‘ ۔ چنانچہ قاتل کو حنین نامی ایک شخص کے حوالہ کیا گیا جو مقتول کے وارثین میں سے تھا اور اس نے اس مسلمان قاتل کو قتل کرڈالا ۔ (زیلعی تخریج ہدایہ ص :۲۲۹۔۲۲۸)
حضرت علی مرتضیٰ کرم اﷲ وجہہ نے صاف طورپر اقلیت کے حقوق کو بیان کرتے ہوئے فرمایا : ’’جو لوگ ذمی (اقلیت)ہیں ان کا خون ہمارا خون ہے اور ان کا خوں بہا ہمارا خوں بہا ہے ‘‘، اسی طرح حضرت علی مرتضیٰ کرم اﷲ وجہہ کے عہد میں ایک مسلمان نے کسی ’’ذمی‘‘ کو قتل کردیا تو آپ نے قاتل مسلمان کو قتل کرنے کاصاف حکم فرمایا اور جب مقتول کے ورثاء نے خون کو معاف کیا تو ان سے دریافت فرمایا ’’کیا تم پر کچھ دباؤ تو نہیں ہے؟‘‘ (زیلعی ص :۲۸)
اسلامی تاریخ ، اسلامی قانون و انصاف کی ایسی بے شمار مثالوں سے لبریز ہے لیکن نہ دنیا اس سے واقف کرائی گئی اور نہ مسلمان علماء اس کی اشاعت و تبلیغ کو اپنا مذہبی فریضہ سمجھ رہے ہیں۔ اسلامی قوانین کی خوبیوں سے دنیا کو روشناس کرانے سے مسلمانوں کو دنیا میں تقویت حاصل ہوگی ۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ اسلام کا عائلی نظام اور نکاح و طلاق کے قوانین کی صحیح تعبیر و تشریح ہی آج کے دور میں اسلام کی حقانیت صداقت اور بلندی کو ثابت کرنے کیلئے کافی ہوسکتی ہے کیونکہ ساری دنیا عائلی انتشار کی طرف رواں دواں ہے بالخصوص مغرب میں گھریلو نظام بالکل تباہ ہوچکا ہے اور مغربی تہذیب کی اندھی تقلید میں ہندوقوم بھی گرفتار ہوتی جارہی ہے ۔
مسئلہ طلاق ثلاثہ کے پورے سیناریو میں ہندوستان کے کسی بھی مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے کوئی عالم دین قومی میڈیا پر اسلام کے نظام طلاق کے حقائق کو موثر طورپر تشریح کرتے ہوئے نظر نہیں آئے ۔ کیا یہ پورے ہندوستان کے علماء بالخصوص دینی مدارس و جامعات کے لئے لمحۂ فکر نہیں ہے ۔ کیا جس عالمگیر اور آفاقی مذہب کی اشاعت نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ و سلم نے فرمائی تھی اس کے قانون کی صحیح تعبیر و تشریح کے ذریعہ اس دین کی تجدید کا عمل جاری نہیں ہوگا ؟