فاتحہ، درود و سلام

   

سوال: کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میںکہ بعد نماز فجر و عصر فاتحہ کا پڑھنا اور نماز جمعہ کے بعد اجتماعی طور پر مسجد میں آقائے نامدار حضور اکرم ﷺ پر سلام پڑھنا جائز ہے یا نہیں ؟
بینوا تؤجروا
جواب : فاتحہ سے ایصال ثواب مقصود ہے، انفرادی و اجتماعی طور پر پڑھنا مستحب اور باعث ثواب ہے۔ کنزالعمال جلد ۴ ص ۱۶۴ میں ہے : من قرأ بعد الجمعۃ بفاتحۃ الکتاب وقل ھواﷲ أحد وقل أعوذ برب الفلق وقل أعوذ برب الناس حفظ ما بینہ وما بین الجمعۃ الأخری (جو شخص بعد نماز جمعہ سورئہ فاتحہ، سورئہ فلق اور سورئہ ناس پڑھیگا تو وہ اس جمعہ سے آئندہ جمعہ تک اﷲ تعالیٰ کی حفاظت میں رہیگا) (حدیث)۔نبی اکرم ﷺ پر سات ممنوعہ مقامات کے سواء ہر ممکنہ وقت پر عموماً اور یوم جمعہ، شب جمعہ کو خصوصاً انفرادی طور پر اور اجتماعی صورت میں درود و سلام پڑھنا درست ہے۔ درمختار بر حاشیہ رد المحتار جلد اول صفحہ ۳۸۳ مطلب نص العلماء علی استحباب الصلوۃ علی النبی ﷺ فی مواضع کے تحت ہے : ومستحبۃ فی کل اوقات الامکان۔ اور ردالمحتار میں ہے : ای حیث لامانع ونص العلماء علی استحبابھا فی مواضع یوم الجمعۃ ولیلتھا… وعندالصباح والمساء… وعندالاجتماع والافتراق۔ نیز اسی صفحہ میں ہے: تکرہ الصلوۃ علی النبی ﷺ فی سبعۃ مواضع : الجماع وحاجۃ الانسان وشھرۃ المبیع والعثرۃ والتعجب والذبح والعطاس۔
البتہ اس قدر بلند آواز سے پڑھنا کہ اس سے دوسروں کی نیند یا عبادت میں خلل پڑتا ہو تو اس سے پرہیز کرنا چاہئے۔ ردالمحتار جلد اول صفحہ ۴۸۸ میں مطلب فی رفع الصوت بالذکر میں ہے : اجمع العلماء سلفا وخلفا علی استحباب ذکر الجماعۃ فی مساجد وغیرھا الا ان یشوش جھرھم علی نائم أومصل أو قاری۔پس صورت مسئول عنہا میں مصلیوں کا نماز فجر، عصر اور جمعہ کے بعد فاتحہ، دعا اور سلام پڑھنا جائز اور باعث برکت ہے۔ مستحب اور برکت والے عمل کو روکنا درست نہیں۔ فقط واﷲأعلم