فرقہ وارانہ نفرت پر کارروائی کیوںنہیں؟

   

ملک میں جیسے جیسے انتخابات کا موسم قریب آتا جا رہا ہے فرقہ وارانہ کشیدگی کے واقعات بھی بڑھتے جا رہے ہیں۔ جاریہ سال کے اواخر تک ملک کی مختلف ریاستوں میں اسمبلی انتخابات کیلئے ووٹ ڈالے جائیں گے جبکہ آئندہ سال کے پہلے ششماہی میں ملک میںعام انتخابات کا وقت ہوسکتا ہے ۔ ایسے میں سیاسی جماعتوں کی سرگرمیاں اور عوام کے درمیان پہونچتے ہوئے انہیں رجھانے کی کوششیں کرنا ‘ نت نئے وعدے کرنا اور عوام کو ہتھیلی میں جنت دکھانا ایک عام بات ہے ۔ تاہم یہ دیکھا گیا ہے کہ گذشتہ چند برسوں کے دوران انتخابات کے موسم میں انتخابی اور سیاسی سرگرمیوں کی بجائے فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کی کارروائیاں تیز ہوتی جا رہی ہیں۔ ہر گوشے سے ملک کے پرامن اور خیرسگالی والے ماحول کو پراگندہ کیا جا رہا ہے ۔ سماج میں نفرتوں کا زہر گھولتے ہوئے مختلف طبقات کوا یک دوسرے سے متنفر کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی جا رہی ہے ۔ بی جے پی کے مرکز میں برسر اقتدار آنے کے بعد جس طرح ہجومی تشدد کا سلسلہ چل پڑا تھا وہ سارے ملک کیلئے ایک نیا تجربہ تھا ۔ تاہم اب ہجومی تشدد کو معمول بنادیا گیا ہے ۔ کہیں سے اچانک ہی گئو دہشت گرد نمودار ہوتے ہیں کسی پر بھی گئو کشی کایا مویشی چوری کا الزام عائد کردیتے ہیں اور انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے ۔ ان گئو دہشت گردوں نے قانون کو اپنے ہاتھوں میں لیا ہوا ہے ۔ خود قانون کی دھجیاں اڑاتے جا رہے ہیں اور ان میں قانون کا کوئی خوف نہیں ہے ۔ وہ قانون کو مذاق بناچکے ہیں اور افسوس کی بات یہ ہے کہ نفاذ قانون کی ایجنسیاں بھی ان دہشت گردوں کے ہاتھوں کا کھلونا بن گئی ہیں۔ ان دہشت گردوں کے خلاف کوئی کارروائی کرنے کی بجائے انہیں قانون کے شکنجہ سے بچانے پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے ۔ جو لوگ موت کے گھاٹ اتار دئے جاتے ہیں ان کے خلاف مقدمات درج کئے جاتے ہیں۔ انہیں من گھڑت اور فرضی مقدمات میں ماخوذ کردیا جاتا ہے ۔ اس کا واحد مقصد یہی ہوتا ہے کہ ان کا قتل کرنے والوں کو قانون کے شکنجہ سے بچایا جاسکے اور انہیں عدالتوں سے سزائیں نہ دلائی جاسکیں۔
ملک کی بے شمار ریاستیں ایسی ہیں جن میں گئو دہشت گردوں نے قتل و غارت گری کا ننگا ناچ برپا کیا ہے ۔ قانون کی دھجیاں اڑائی ہیں اور بی جے پی اور اس کے قائدین یا وزراء کی جانب سے ان قاتلوں اور مجرموں کی گلپوشی کی جا رہی ہے ۔ انہیں تہنیت پیش کی جا رہی ہے ۔ انہیں سنسکاری قرار دیا جا رہا ہے اور ان کو قانون کے شکنجہ سے بچانے کیلئے انتخابی میدان میں تک اتارا جا رہا ہے ۔ کئی ریاستوں میں اب بتدریج فرقہ وارانہ کشیدگی میںاضافہ کیا جا رہا ہے ۔ کئی گوشوں سے سماج کے تانے بانے متاثر کئے جا رہے ہیں اور منافرت کو ہوا دینے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی جا رہی ہے ۔ راجستھان سے دو نوجوانوں کو گئو کشی کے شبہ میں اغوا کرلیا جاتا ہے ۔ انہیں ہریانہ لایا جاتا ہے اور وہاں انہیں زندہ جلا دیا جاتا ہے ۔ یہ انسانیت کو شرمسار کرنے والی انتہائی بہیمانہ اور رسواء کن واردات ہے اور افسوس کی بات یہ ہے کہ ایسے دہشت گردوں کے خلاف ان ریاستوں کی پولیس کوئی سخت کارروائی نہیں کرپاتی ۔ ضابطہ کی تکمیل کیلئے ایسے مقدمات درج کئے جاتے ہیں جن میں عمدا جھول رکھا جاتا ہے تاکہ ملزمین عدالتوں سے براء ت حاصل کرسکیں۔ شر انگیز بیان بازیاں بھی ایک نیا رجحان تھا جو عام ہوگیا ہے ۔ بی جے پی کے ریاستی قائدین اور وزراء تک اس طرح کی شرا نگیزی کرنے سے گریز نہیںکرتے ۔ ملک کی جدوجہد آزادی کو ایک سمت دینے اور انگریزوں کے خلاف سینہ سپر ہوکر سارے ملک کا دفاع کرنے والے مسلمانوں کے تعلق سے رسواء کن مہم چلائی جاتی ہے اور ان کے خلاف نفرت انگیز زہر اگلا جاتا ہے ۔ یہ ملک کی خدمت نہیں بدخدمتی ہی ہے ۔
اس طرح کے واقعات کو عام ہونے سے روکا نہیں گیا اور اب ان میںاضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ سماج میں امن و ہم آہنگی کو متاثر کرتے ہوئے نفرت کی فضاء پھیلانے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے ۔ انہیں قانون کے شکنجے میں کسا جائے ۔ جو پولیس اور دوسرے متعلقہ عہدیدار اس طرح کی کارروائیوں میں جان بوجھ کر غفلت برتتے ہیں یا پھر مجرمین کی مدد کرتے ہیں ان کے خلاف بھی تحقیقات کروائی جانی چاہئیں۔ انہیں بھی کٹہرے میں لا کھڑا کرنا چاہئے ۔ انہیں بھی جوابدہ بنایا جانا چاہئے ۔ آج تک گئو دہشت گردوں کو کسی کارروائی پر سزا نہیں دلوائی گئی ۔ اب قانون کے نام نہاد رکھوالوں کے خلاف کارروائی کی جانی چاہئے تاکہ وہ اپنے فرائض منصبی کی تکمیل سے پہلو تہی نہ کرپائیں۔
دہلی مئیر کا انتخاب
سپریم کورٹ کے واضح احکام کے بعد اب دہلی میونسپل کارپوریشن کے مئیر کا چہارشنبہ کو انتخاب عمل میں آنے والا ہے ۔ دہلی میونسپل کارپوریشن کے انتخابات میںدہلی کے عوام نے بی جے پی کے پندرہ سالہ اقتدار کو ختم کرتے ہوئے عام آدمی پارٹی کے حق میں اپنے ووٹ کا استعمال کیا تھا اور بی جے پی کو کہیں پیچھے چھوڑتے ہوئے عآپ نے زیادہ نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی ۔ بی جے پی کی ساری کوشش یہی تھی کہ ہٹ دھرمی اور طاقت کے استعمال کے ذریعہ دہلی میں مئیر کا عہدہ حاصل کرلیا جائے جس طرح ملک کی مختلف ریاستوں میں ساز باز اور توڑ جوڑ کے ذریعہ چیف منسٹر کے عہدے حاصل کئے گئے ہیں۔ جمہوری عمل کا مذاق بناتے ہوئے بی جے پی طاقت اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرنے پر اتر آئی ہے ۔ دہلی میں لیفٹننٹ گورنر کے ذریعہ نامزد کردہ ارکان کو بھی مئیر کے انتخاب میں وو ٹ ڈالنے کا حق رہنے کا دعوی کیا گیا جبکہ ایسا بالکل نہیں تھا ۔ سپریم کورٹ نے یہ واضح کردیا کہ لیفٹننٹ گورنر کی جانب سے میونسپل کارپوریشن کیلئے جو ارکان نامزد کئے گئے ہیں وہ مئیر کے انتخاب میں ووٹ نہیں ڈال سکتے ۔ سپریم کورٹ کے ان احکام نے بی جے پی کے ہٹ دھرمی والے رویہ کو ناکام بنادیا ہے اور اس کی کوشش مئیر کا عہدہ حاصل کرنے کی جو تھی وہ اب کامیاب نہیں ہو پائے گی ۔ اب جبکہ مئیر کا انتخاب چہارشنبہ کو عمل میں لانے کا فیصلہ کیا گیا ہے تو بی جے پی کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ قانون اور جمہوری عمل کی پاسداری کا مظاہرہ کرے ۔ سپریم کورٹ کے احکام کی پابندی کرے اور عوام کے ووٹ سے منتخب ارکان کو ووٹ دینے کا موقع دیتے ہوئے مئیر کے انتخاب کی راہ ہموار کرے اور اس میں کوئی اور رکاوٹ پیدا نہ کی جائے ۔