فقیہہ ملت حضرت مولانا مفتی محمد عظیم الدین صاحب قبلہؒ

   

ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری
علماء ہی نبیوں کے وارث ہیں جنہوں نے علم کی وراثت پائی جس نے یہ وراثت پائی، اس نے بڑا حصہ پالیا اور جو حصول علم کی راہ پر چلا، اللہ اس کے لئے جنت کی راہ آسان کردیتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے ’’بے شک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہو، مذکورہ بالا حدیث اور قرآنی آیت پر غور کیا جائے تو اس کا مفہوم فقیہ الاسلام حضرۃ العلام مولانا مفتی محمد عظیم الدین صاحب قبلہ رحمتہ اللہ علیہ کی شخصیت پر روز روشن کی طرح ہے۔ دکن کی مٹی کو قدرت نے زرخیز بنایا ہے اور مردم خیز بھی۔ ہر دور میں اس سرزمین سے اساطین علم و ادب اور سلاطین دین و مذہب کا ظہور ہوتا رہا ہے۔ قطب شاہی حکمران ہوں کہ آصف جاہی تاجدار کوئی عہد بھی دانشوروں، عالموں، صوفیوں، دیدہ وروں اور قدآوروں سے خالی نہیں رہا۔ پاسبان علوم اور محافظان فنون کا وجود اس خطہ کی علمی، عملی، تحقیقی، قانونی اور عائلی اور وراثتوں کا ضامن رہا ہے۔ آصف جاہ سابع میر عثمان علی خاں کے عہد زرین نے اس تابندگی کو دوبالاگی عطا کردی۔ اسی عہد میں دکن کے ممتاز فقیہ، عالم، اسلامی قانون کے ماہر، مردم شناس اور مخطوطہ شناس ادب عربی کا نابغہ روزگار دائرۃ المعارف العثمانیہ کے صدر مصحح حضرۃ العلام مولانا مفتی محمد عظیم الدین صاحبؒ کا ظہور بھی ہوا تھا جو نصف صدی سے زائد علوم و فنون بالخصوص فقہ اسلامی غیرمتزلزل ستون کی طرح بلاانقطاع ملک و قوم کی خدمات انجام دیا۔ آپؒ کی اپنی طویل بیش بہا خدمات کے صلہ اور اعتراف میں ملک کا عظیم اعزاز صدرجمہوریہ ہند کے ہاتھوں عطا کیا گیا تھا، اسی طرح تلنگانہ سرکار نے بھی علمی و تحقیقی خدمات کے پیش نظر ریاست کے خصوصی اعزاز سے نوازا۔ بحیثیت مفتی ہزارہا فتاوی آپ کے جنبش قلم سے جاری ہوئے اور کئی مخطوطات کو آپ نے اپنی تحقیق سے جاوداں بنا ڈالا۔ آپؒ کا شمار دبستان نظامی کے ایسے پھولوں میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنی شخصیت، عادات و کردار اخلاق و اطوار، علمیت و صلاحیت تحقیق و تدقیق، سکوت و وقار، راست بازی، حق گوئی، حق رسی، حق شناسی، حق پرستی، قناعت ومتانت، شکر و سپاس گزاری ، خلق و مروت، جود و سخاوت، رشد و ہدایت، عبادت و ریاضت، قابلیت و قبولیت کی خوشبو کے ذریعہ لاکھوں بندگان خدا کے قلوب کو معطر کیا ہے۔ ہزارہا افراد کو اپنے قلم و قدم سے صراط مستقیم پر گامزن کیا، سینکڑوں کو کلمہ طیبہ کی تعلیم و تلقین فرمائی۔ اپنی انتھک کوششوں اور کاوشوں سے اساتذہ مادر علمی جامعہ نظامیہ، شہر، ریاست اور ملک کا نام روشن کیا اور نادر و نایاب ثقافت اسلامی ورثہ کا تحفظ کرتے ہوئے ہند و عرب تعلقات میں مضبوطی کے ذریعہ رابطہ عالم اسلامی کو استحکام بخشنے میں ناقابل فراموش رول ادا کیا ہے۔ مفتی صاحب قبلہؒ کی ولادت باسعادت 1939ء حیدرآباد کے علمی گھرانے میں ہوئی۔ آپ کا سلسلہ نسب اس طرح ہے: حضرت محمد عظیم الدینؒ ولد حضرت محمد نظام الدینؒ، حضرت شیخ حسینؒ۔ ایک علم دوست اور دیندار گھرانے میں آپ کی تعلیم و تربیت کے ابتدائی مراحل طئے ہوئے۔ جامعہ نظامیہ میں داخلہ کے بعد جلیل القدر اساتذہ شیوخ کرام سے آپ ؒ نے بھرپور استفادہ کیا۔ ان میں حضرت العلام مولانا مفتی محمد رحیم الدینؒ حضرت العلام مولانا مفتی محمد عبدالحمیدؒ صدیقی حضرت علامہ مفتی مخدوم بیگ ؒ الہاشمی، محدث کبیر حضرت علامہ ابوالوفاء الافغانیؒ حضرت علامہ مفتی شیخ محمد سعیدؒ جیسے اکابر و اعاظم شامل ہیں۔ 1956ء میں حضرت مفتی صاحب نے سند فضیلت اور 1959ء جامعہ نظامیہ کی اعلیٰ سند کامل الفقہ درجہ اول سے حاصل کی۔ جامعہ نظامیہ سے فراغت کے بعد آپؒ نے عملی زندگی میں قدم رکھا اور اسلامی ثقافت و معارف کے محافظ بین الاقوامی شہرت کے حامل تحقیقی ادارہ دائرۃ المعارف العثمانیہ سے علمی و تحقیقی خدمات کا آغاز مصحح کی حیثیت سے کیا۔ سخت محنت، جستجو، تجربہ، مخطوطہ شناسی اور فنی مہارت و بے مثال پابندی کو دیکھ کر ارباب دائرۃ المعارف العثمانیہ نے آپؒ کو صدر مصحح کے عہدہ پر فائز کیا۔ آپؒ نے بلاوقفہ یہ خدمت 1999ء تک انجام دی۔ اسی دوران کئی نادر و نایاب مخطوطات کی تدوین و ترتیب اور جدید صورت گری کا عظیم کارنامہ انجام دیا۔ اس کے بعد وظیفہ حُسن خدمت پر سبکدوش ہوئے۔ آپؒ نے اپنی مادر علمی جامعہ نظامیہ سے بھی ربط و تعلق کو برابر قائم رکھا اور بحیثیت مفتی 1963ء سے اور تادم حیات مبارک دارالافتاء سے وابستہ رہے۔ اس دوران ہزارہا فتاوی آپؒ نے مرتب اور جاری فرمائے۔ مجلس علماء دکن کے رکن معزز کی حیثیت سے بھی آپ کی خدمات نہایت قابل قدر ہیں۔ 1393ھ میں آپؒ نے زیارت حرمین شریفین، زاد ھما اللہ شرفا و تعظیما کی سعادت والدہ مخدومہ کے ہمراہ حاصل کی اور اجلہ علماء کرام بشمول فضیلۃ الشیخ حضرت عبدالفتاح ابو غدہؒ سے شرف ملاقات حاصل کیا۔ بہرحال حضور پاک علیہ الصلوۃ و اسلام کا فرمان عالیشان ہے کہ رشک تو بس دو بندوں پر ہونا چاہے ایک وہ جسے اللہ نے مال دیا اور اسے اس نے راہ حق پر خرچ کرنے پر لگا دیا اور دوسرا وہ جسے اللہ علم و حکمت دے اور وہ اس سے فیصلے کرتا اور اس کی تعلیم دیتا ہے۔ جب آدمی مرجاتا ہے۔ اس کا عمل اس سے ختم ہوجاتا ہے مگر تین اعمال سے تعلق باقی رہتا ہے۔ ایک صدقہ جاریہ دوسرا علم جو سودمند ہو اور تیسرے نیک اولاد جو اس کے لئے دعا کرتی ہے۔ (مسلم شریف)
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضور پاک علیہ الصلاۃ و السلام نے فرمایا جو کسی مسلمان کی کوئی دنیوی مشکل حل کرے، اللہ تعالیٰ اس کی قیامت کی مشکل حل فرمائے گا۔
اور جو کسی تنگدست پر آسانی کرے، اللہ تعالیٰ اس کی دنیا و آخرت میں پردہ پوشی فرمائے گا اور اللہ بندے کی مدد کرتا رہتا ہے ، جب تک وہ اپنے بھائی کی مدد کرتا رہتا ہے اور جو حصول علم کے لئے سفر کرتا ہے ، اس کے عوض اللہ اس کے لئے جنت کی راہ آسان فرما دیتا ہے، اور جو قوم اللہ کے گھروں میں سے کسی گھر میں جمع ہوکر اللہ کی کتاب پڑھے اور ایک دوسرے کو پڑھائے، ان پر سکون و اطمینان کی بارش ہوتی اور اللہ کی رحمت انہیں ڈھانپ لیتی ہے اور اللہ ان کا اپنی بارگاہ کے خاص اہل مجلس میں فخریہ طور پر ذکر فرماتا ہے اور جسے اس کا عمل موخر کرے، اسے اس کا نسب مقدم نہیں کرسکتا۔ (مسلم شریف) اللہ نے مخلوق کو بے مقصد پیدا نہیں فرمایا بلکہ حلال و حرام اور جائز و ناجائز کے اُصولوں کا پابند کیا ہے، ہم اس کے بندے ہیں، اس کی حدود میں زندگی گزارنے کے پابند ہیں۔ حضرت مفتی قبلہؒ نے اپنی ساری حیات مبارکہ ان ہی مذکورہ بالا ارشادات کو مدنظر رکھ کر گزاری، مگر کسی غیرمسلم کے ہاتھ کا نہ کھائے نہ پیئے۔ ہندوستان کی سرزمین اور آج کے حالات اس کے باوجود مفتی صاحبؒ کی یہ پرہیزگاری اللہ اکبر۔ مجھے وہ حدیث یاد آگئی جو حضور پاک علیہ الصلاۃ و الاسلام نے فرمایا تھا مجھے ہند سے ٹھنڈی ہوا آرہی ہے، جسے علامہ اقبالؔ نے شعر کے پیرہن میں یوں فرمایا:
میر عرب کو آئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے
میرا وطن وہی ہے میرا وطن وہی ہے

اللہ عزوجل جب اپنے بندوں پر رحم کرنا چاہتے ہیں ان پر ان رحمتوں کی بارش کرنا چاہتے ہیں تو انہیں علم کی نعمت سے نوازتے ہیں۔ اپنے مقرب بندوں کو بہترین اخلاق کی دولت عطا کرتے ہیں۔ لوگوں میں ممتاز بناتے ہیں ان کے چہروں پر ایسا رعب و دبدبہ پیدا کرتے ہیں کہ دوسرے ان سے نظریں معاملہ بھی ملانے کی جرأت نہیں کرسکتے۔ ایسا ہی کچھ حضرت مولانا مفتی محمد عظیم الدین صاحبؒ کا تھا۔ عالم اسلام کی عظیم دینی درسگاہ جامعہ نظامیہ کے صدر مفتی کی حیثیت سے آپ ؒ نے کم از کم 50 ہزار فتاویٰ جاری کئے جبکہ ان فتاویٰ کے علاوہ ایسے ہزاروں فتاوی بھی آپ ؒ نے جاری کئے جو جامعہ نظامیہ کے لیٹر ہیڈ پر تو دیئے گئے لیکن ان کا دارلافتاء سے جاری کئے جانے والے فتاویٰ میں شمار نہیں کیا گیا۔ دارالافتاء جامعہ نظامیہ کی جانب سے جاری کردہ فتاویٰ کی جلدوں کی تیاری کا کام جاری ہے اور فی الوقت 72 یا 73 ویں جلد چل رہی ہے تاحال 30 سے زائد جلدیں تیار کروائی گئی ہیں ہر جلد میں یقینا ہزار سے زائد فتاویٰ شامل ہیں۔ حضرت العلامہ مفتی عظیم الدین صاحب قبلہ ؒ وقت کی بہت پابندی کیا کرتے تھے۔ اگر وہ کسی محفل یا تقریب وغیرہ میں جانا ہوتا تو مقررہ وقت سے 15 تا 20 منٹ پہلے وہاں موجود ہوتے اور آپ ؒ کا یہ معمول تھا کہ جامعہ نظامیہ کے دارالافتاء میں داخل ہونے سے پہلے بانی جامعہ نظامیہ مولانا انوار اللہ خان فاروقی کی بارگاہ میں حاضری دیتے آپ ؒ کی ایک اور خاص بات یہ تھی کہ وہ اپنے شاگردوں، دوست احباب رشتہ داروں جامعہ نظامیہ کے خادمین کی ہر لحاظ سے مدد کیا کرتے لیکن اس کا کسی بھی طرح چرچہ نہیں ہوتا۔ آپ ؒ کو اللہ عزوجل نے بہت سخی بنایا تھا۔ آپؒ کے شاگردوں کے حوالہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ آپ ؒ کے بھائی بتاتے ہیں کہ ’’ہمارے بھائی صاحب ہمارے مربی تھے انہوں نے ہماری بہتر انداز میں تربیت کی‘‘ حضرت مولانا مفتی عظیم الدین ؒ کے چہرے پر ایک قدرتی رعب تھا۔ مفتی کا منصب آپ کے چہرے سے ظاہر ہوتا تھا، لیکن حقیقت میں وہ انتہائی نرم مزاج تھے۔ ہاں شرعی معاملات میں کوئی سمجھوتہ نہیں کرتے کوئی چیز خلاف شریعت ہوتی تو چہرہ پر ناگواری اور برہمی کے آثار ظاہر ہوتے۔ آپ جو کچھ بھی تحریر کرتے تب اس بات کا ضرور خیال رکھتے کہ کسی حرف میں غلطی ہو پائے معمولی غلطی کا بھی فوری نوٹ لیتے اور اس غلطی کی تصیح کرتے اور تصیح کے بعد ہی فتویٰ جاری کرتے۔ حضرت کے بارے میں یہ مشہور تھا کہ اگر وہ کسی محفل میں مدعو کئے جاتے اور اس وقت یہ کہتے کہ آؤں گا انشاء اللہ تو اُس محفل میں ضرور شرکت کرتے۔ رات 2 بجے بیدار ہونا نماز تہجد، تلاوت کلام پاک اذکار آپ کے معمولات میں شامل تھے۔ اور ادووظائف کے لئے دیڑھ سے دو گھنٹے وقت نکال لیتے۔ نماز فجر کے بعد تسبیح پڑھتے ہوئے چہل قدمی کرتے۔ اس وقت آپ کو پہچاننا بہت مشکل ہوتا۔ حضرت مولانا مفتی عظیم الدین صاحب قبلہ ؒ تصاویر نہیں لیتے تھے، ان کی زیادہ تر زندگی تصاویر سے پرہیز کرتے گذری اس لئے آپ کی بہت کم تصاویر ہیں۔ جب نماز ادا کرنے جماعت میں شریک ہوتے تو امام کے بالکل پیچھے اور موذن صاحب کے بازو کھڑے رہتے۔ امامت کرتے تو مائیک کے قائل نہیں تھے۔ آپ ؒ کے شاگرد رشید مفتی محمد قاسم صدیقی تسخیر نے آپؒ کے اہم فتاویٰ پر مبنی 50 سے زائد صفحات پر مشتمل ’’منتخب فتاوی‘‘ کے نام سے ایک مختصر سا کتابچہ ترتیب دیا ہے۔ حضرت کے بارے میں شاگردوں کا کہنا ہیکہ وہ اپنے شاگردوں کے ساتھ انتہائی شفقت سے پیش آتے۔ بہتر انداز میں ان کی رہنمائی کرتے ان کے ساتھ اپنی اولاد کی طرح سلوک روا رکھتے۔ دارالافتاء سے جو بھی فتاویٰ جاری کرتے شیوخ حضرات سے اس پر ضرور دستخطیں لیتے اور کہتے کہ فتاویٰ جاری کرنا بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ کل اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہونا ہے۔ حضرت قبلہ ؒ کے چاہنے والے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔ آپؒ کے سانحہ ارتحال پر کویت کے جج حسن ہیتو الجیلانی کا کہنا تھا کہ مفتی محمد عظیم الدین کا وصال صرف جامعہ نظامیہ حیدرآباد یا ہندوستان کا ہی نہیں بلکہ ساری دنیا کے اہل علم کا نقصان ہے۔ حضرت قبلہ عازمین حج و عمرہ کا بہت احترام کرتے ان کے اعزاز میں دعوتوں کا اہتمام کرتے اور انہیں ہدیہ پیش کرتے۔